وہ نومبر کی صبح تھی ۔۔۔۔۔ تاریکی نے ابھی چھٹنا شروع کیا تھا اور سورج نے میرے سامنے موجود ریت کے ایک بڑے ٹیلے کے پیچھے سے ا ٓہستہ ا ٓہستہ جھانکنے کی ابتدا کی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ ۔ا ٓدھے کلو میٹر کے فاصلے پر کھڑے مستطیل شکل کے ٹیلے پر اس ملک کے درماندہ انسانوں کے جھونپڑ نما گھروں سے۔۔۔ ہلکا ہلکا دھواں اٹھ رہا تھا ۔۔۔۔۔ شاید صبح کی چائے کے لئے صحرائی عورتوں نے اپنے چولہوں پر ہنڈیاں چڑھا دی تھیں۔۔۔۔ ۔اچانک میری نظر دردو کرب سے بھرپور اس منظر پر پڑی ۔۔۔۔۔۔۔پو پھٹنے کے ساتھ ہی صحرائی عورتیں اپنے سروں پر پانی کے مٹکے اور کمر پر مشیکیزے لئے پانی کی تلاش میں ٹیلے سے نیچے اترر ہی تھیں ۔۔۔۔۔۔ اور میں تھر لاج کے بنے خوبصورت ریسٹ ہاوس کی گیلری سے بڑی محویت سے ا س منظر کو دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔۔ میرا ذہن تھری عورت کی درد و کرب سے بھرپور زندگی کا تجزیہ کر رہا تھا ۔ کہ اس صحرائی عورت کے کرب کا اختتام کب ہوگا ۔۔۔۔ ؟ کب پانی کی تلاش کے چکر سے اسکی جان چھوٹے گی ۔۔۔۔۔۔۔
اور یکایک میرے ذہن میں درد اور کرب سے عورت کے تعلق کی گرہیں کھلنے لگیں ۔۔۔۔۔ شاید بنانے والے نے درد و کرب کو جھیلنا عورت کی فطرت میں ڈال دیا ہے ۔ یہ درد سہنے کی ہمت بھی رکھتی ہے اور اس پر آہ نہ کرنے کی سکت بھی اسکے اندر موجود ہے ۔ شدید درد کو بھی مسکراہٹ میں چھپا کر سہہ جانے کی ادا شاید اسکے اندر ودیت کردی گئی ہے ۔ اور میں سوچنے لگا کہ جب درد و کرب کی ہولناکی اپنی انتہا کو پہنچتی ہے ، تو تخلیق کا عمل شروع ہوتا ہے ۔ مشیت ایزدی نے جب نسل انسانی کی تخلیق کا عمل جاری رکھنے کا منصوبہ بنایا تو اسکے لئے عورت جیسی ہستی کا انتخاب کیا ۔۔۔۔۔ جو درد زہ جیسی قیامت خیزتکلیف کو جھیل کر تخلیق کا فرض نبھانے کے لئے مسکراتے ہوئے تیار ہو جاتی ہے ۔۔۔۔۔۔ میرے ذہن میں آیا کہ تخلیق کا عمل عقل کی بیناد پر نہیں بلکہ جذبے کی بنیاد پر پایہ تکمیل کو پہنچتا ہے ، جذبہ نہ ہو تو تخلیقی ذہن ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ اللہ نے جب عورت کو تخلیق کی اعلیٰ ترین ذمہ داری پر فائز کیا تو اسکے اندر جذبے کی کیفیت کو پروان چڑھایا ۔ جذبے کی عظمت سے انکار ممکن نہیں ۔ کیونکہ محبت ، خدمت ، قربای ، ایثار میل ملاپ ، رشتے ناطے ، یہ سب جذبات پر استوار ہوتے ہیں ۔ جذبے کے تابع ہیں ۔ اور عورت ذات ایثار و قربانی کا پیکر بن کر محبت کو اپنی وفائوں کے پانی سے سینچ کر سیراب کرتی ہے تب کہیں جاکر تخلیق کا عمل پایہ تکمیل کو پہنچتا ہے ، جو صرف خالق کائنات ہی کو ساجھے ، اس رب کائنات نے اس عظیم کام کے لائق بنانے کیلئے عورت کو درد وکرب کے ان تمام مراحل سے گزارا تب جاکر عورت کو تخلیق کے اس مقام پر فائز کیا جو رب العالمین کا اپنا مقام ہے بہت ہی اونچا اور اعلیٰ مقام ہے ۔ اور میں سوچنے لگا کہ ایثار و قربانی ، محبت اور وفا کے مراحل سے گزرنے کیلئے بھی درد ارو کرب درکار ہوتا ہے ۔ درد اور کرب کی بٹھی سے نکل کر ہی عورت ایسا کندن بنتی ہے کہ اسے تخلیق کا کام سونپا جاتا ہے ۔
عورت ہر کام جذبے سے کرتی ہے جبکہ مرد عقل سے سوچتا ہے ، ایمان بھی جذبے کے زور پر پیدا ہوتا ہے جبکہ عقل شکوک و شبہات کو جنم دیتی ہے ۔ سب سے پہلے عقل کی بات یا دلیل ابلیس نے دی تھی اور سجدے سے انکار کیا تھا ۔ جبکہ فرشتوں نے نے عقل نہیں بلکہ جذبے کی بنیاد پر اللہ کے حکم کی بجا ا ٓوری کی تھی ۔ وہ جذبہ ، اللہ سے محبت کا جذبہ تھا ۔ اللہ کو محبوب بنانے کا جذبہ تھا ، جبکہ ابلیس نے عقل کے زور پر اللہ کو محبوب نہیں معبود بنایا تھا ۔
عور ت کے پاس بھی محبت کے یہی لطیف جذبے ہیں جسکی بنا پر وہ ساری تکللیفیں سہہ کر محبت کے نخلستان کی ا ٓبیاری درد وکرب سے کرتی ہے اور یہی درد و کرب سہہ کر کائنات کی عظیم ذمہ داری سے عہدہ براں ہوتی ہے ۔
اور تھر لاج کی اس بالکونی میں کھڑا میں سوچنے لگا کہ۔۔۔۔ یہ ہے درد اور کرب کا رشتہ ۔۔۔۔۔، اور مجھ پرآشکار ہوا کہ درد اور کرب کے بغیر نہ تو تخلیق کا عمل وقوع پزیر ہو سکتا ہے ، نہ ہی کسی اعلیٰ مقام پر فائز ہوا جا سکتا ہے ۔ اعلیٰ مقام پانے کیلئے درد کی بھٹی سے گذرنا پڑتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جب میری سوچ کا زاویہ درد و کرب کا رااز جان چکا ۔۔۔۔تو تھری عورتوں کا قافلہ مٹکوں میں پانی بھر کر ٹیلے کی اوٹ میں اپنے گھروندوں کو جا چکا تھا ، اور درد و کرب جھلینے کے ساتھ اپنی سہیلیوں سے اٹھکیلیاں کرتی انکی آوازیں میری سماعتوں سے ٹکرا رہی تھیں۔۔۔۔۔