جتنے اس کے قدم اٹھتے۔۔۔ دل کی دھڑکن تیز ہوتی جاتی۔ بچپن سے جس ملک کو وہ دشمن کی سرزمین سمجھتا آیا، یہاں آنا اس کی سب سے بڑی خواہش بن گئی تھی۔۔ اور پھر مہینوں بعد اسکا انتظار ختم ہوا تھا !
بھارت کےہندو ہونے کے ناطے مکیش کو پاکستان کا ویزہ ملا تو دل کبھی اضطراب تو کبھی ہلکے خوف کی لپیٹ میں چلاجاتا۔
ہوائی جہاز سے کراچی اتر کر مکیش کو ایک ہی لگن تھی۔کہ کسی طرح گناہوں کا بوجھ جو وہ نوجوانی سے ادھیڑ عمری تک ڈھوتا رہا،،، اس کے جسم و جاں سے اتر جائے۔ خطاوں کو دھونے، پاک ہونے، سکون کی تلاش اسے پاکستان کی سرزمین پر کھینچ لائی۔ اب اس کی منزل بلوچستان کا علاقہ ہنگول تھا ۔
کہیں پہاڑ، کہیں سمندر،،، تو کہیں صحرا میں جھانکتے نخلستان۔۔ایک ہی جگہ قدرت کےتمام شاہکار قدرت کی صناعی بیان کر رہے تھے۔کوسٹل ہائیوےکو چھوڑکر پندرہ کلومیٹر تک سنگلاخ پہاڑوں کے درمیان سفرکرتے ،،، بیابان میں ساتھ ساتھ بہتا ہنگول دریا کا نیلا پانی جہاں دلکشی بکھیر رہا تھا ۔۔۔ وہیں مکیش پہاڑوں کی قدرتی سنگ تراشی سے بنی اشکال کے سحر میں کھویا رہا۔۔ ان پہاروں کے غار میں چھپے مندر میں پہنچتے ہی دھوپ کی تپش ٹھنڈک میں بدل گئی۔
نانی مندر کا شمار بہت ہی پرانے مندروں میں ہوتا ہے.کہا جاتا ہے کہ دولاکھ سال قبل اس کی تاریخ ملتی ہے۔ اس کے علاوہ بھی اسی مقام پر مزید مندر موجود ہیں ۔ جن میں ہنگلاج کالی ماتا ، گنیش دیوا مندر، گرو گورک ناتھ دانی مندر قابل ذکر ہیں۔۔پہاڑوں میں گونجتی بھجنگ کی آواز ، ہنگلاج ماتامندر میں پتھروں کے درمیان سےبہتے چشمے ،، کھجور کے درخت کے ساتھ ہی دو مقدس پتھر موجود ہیں ۔ان کے گرد چکر لگاتے یا تریوں کا عقیدہ ہے کہ اب ان کے تمام گناہ دھل گئےہیں ۔ بالکل ایسے جیسے حج کے بعد ایک مسلمان گناہوں سے پاک ہو جاتا ہے ۔۔مکیش نے بھی ماتھا ٹیکا اور پھر پتھروں کے گرد چکر کاٹا،اتم یاتری کے ہر پھیرے کے ساتھ اس کا دل دماغ بھی ہلکا ہوتا گیا۔
ہنگلاج ماتا کے اس مندر میں سالانہ میلے میں تقریبا دس ہزار غیرملکی ہند -اتم یاترا ۔کےلیے آتے ہیِں۔۔اس کے علاوہ سکھوں کی بڑی تعداد یہاں کے درشن کے لئے پہنچتی ہے۔یہاں یا تو پہاڑی ندی کا پانی ملتا ہے یا مندرکی انتظامیہ ٹینکرز سے یاتریوں کی پیاس بجھاتی ہے۔رہائش کے لئے کچھ کمرے تو موجود ہیں، ساتھ ہی لنگر اور کھانے کا ہال زیرتعمیر ہے جبکہ بجلی کی سہولت بھی جنیریٹرز پوری کر رہے ہیں۔مکیش نے دل ہی دل میں سوچا کہ اگر انہی سہولیات کو جدید انداز میں بہتر بنا دیا جائے تو دنیا بھر سے کتنے ہی ہندویہاں آئیں ۔
مکیش کا اگلا پڑاو ایک ایسی سرزمین تھی ،،،جہاں کا پانی اس کے لئے اور تمام ہندو قوم کے لئے گنگا سے بھی پاک و پوتر ہے۔ یہ ہے دریائے سندھ میں واقع سادھو بیلہ ، جو سکھر میں ہے ۔جہاں پر دریائے سندھ ،، راوی ، ستلج ، جہلم ، چناب اوردریائے کابل سمیت سارے دریا ملتے ہیں ۔ گنگا جمنا تو ایک ہے لیکن یہاں سارے دریاوں کے ملنے کی وجہ سے ہندو عقیدے کے مطابق یہاں اشنان کرنے سے انسان روحانی طور پر پاک ہو جاتا ہے۔ دریائے سندھ میں سکھر شہر کے پاس ایک جزیرے پر تعمیر یہ سادھو بیلہ پاکستان کا سب سے بڑا مندر ہے جو پانی میں تیرتا محسوس ہوتا ہے ۔سادھو بیلا مندرتک پہنچنے کے لئے مکیش نے مقامی حضرات کے ساتھ ہچکولے کھاتی کشتی کا سفر طے کیا ۔یہ سفر بھی مذہبی حیثیت رکھتا ہے۔
اس مقام کا ذکر ہندو مت کی کتاب وید میں بھی ملتا ہے۔ اس مندر کو تیرتھ کا درجہ دیا گیا ہے۔۔ (تیرتھ میں ایک نہیں بلکہ بہت سے دیوی اوردیوتاوں کے مندر ہوتے ہیں )یہی وجہ ہے کہ سالانہ پینٹھ ہزاز اور روزانہ دو سو تک ہندو یاتری عبادت کے لئے اس مندر کا رخ کرتے ہیں ۔ جون کے سالانہ میلے میں تین سو بھارتیوں کے ساتھ ساتھ یہاں کے گدی نشین مہاراج شنکر بھارت بھی عبادت کےلئے پہنچتے ہیں۔۔
مکیش کو یہاں کے باون رہائشی کمروں میں سے ایک میں ٹہرایا گیا۔ تھکن سے چور مکیش نے جب تکیے پر سررکھاتو رات کی خاموشی میں بہتے پانی کی سرسراہٹ اسے کسی اور ہی دنیا میں لے گئی۔ وہ دنیا جہاں نہ کوئی پریشانی تھی،نہ ہی کوئی غم ۔ ایک سرورتھا ،،،مثبت سوچیں تھیں اورایک خواہش تھی،،، جینے کی خواہش۔
یہاں جون کے سالانہ میلے میں پینسٹھ ہزار ملکی اور غیرملکی یاتریوں کو سنبھالنا مندر اور ضلعی انتظامیہ کے لئے واقعی ایک کٹھن کام ہے۔ تاہم حکومت سندھ کے جانب سے مختص کئے گئے ایک ارب چھتیس کروڑ کے بجٹ سے مندرمیں ہوسٹل کی تعمیر ومرمت اورتوسیع کا کام جاری ہے۔
سادھو بیلہ میں سکون کے لمحات کشید کرنے کے بعد امریکہ،انگلینڈ،انڈیا،نیپال سے آنے والوں بہت سے ہندووں کی طرح مکیش نے بھی ڈھرکی کے قریب واقع سندھ کے چھوٹے سےگاوں پہنچنے کا قصد کیا ۔ اس مقصد کے لئے وہ ناہموار، تنگ سڑک پر سفر کرکے رہڑکی پہنچا۔۔کہنے کو یہ ایک عام سا گاوں ہے لیکن ہندو مذہب کےلئے ریڑھ کی ہڈی سی حیثیت رکھتا ہے۔یہ ان کے تاریخ کے بڑے صوفی بزرگ سچو سترام داس کی جنم بھومی جو ہے۔جن کی دعاوں سے بیماروں کو شفا، ،،پریشان حال کو خوشی، محبت ،عزت،،دولت سب ہی کچھ مل جاتا تھا۔
آج بھی اس سو سال پرانے مندر کے بڑی دیوڑی(پنڈت) کو دنیا بھر میں سیاسی اور مذہبی حیثیت حاصل ہے۔تب ہی ہندووں کے ساتھ ساتھ سکھ برداری اور سندھ کے بڑےبڑے سیاستدان بھی بڑی دیوڑی سے ملاقات کرنے آتے رہتے ہیں۔۔ ایس ایس ڈی رہڑکی ھندوں کے ہیڈکواٹر کی مانند ہے جبکہ اس کی دنیا بھر میں دوسو شاخیں موجود ہیں
بہترایکڑ پر پھیلے کمپلیکس ،،،کو دیکھ کر مکیش کا حیران ہونابھی بہت فظری تھا،،، جہاں مندروں کو ہاسٹلز اور کمیونٹی ہالز سے ملانے کے لئےسڑکوں،،، انڈر پاس اور فلائی اوورز کا جال بچھا ہوا ہے۔۔یہاں لڑکیوں کو میڈیکل ٹیسٹ کی مفت تیاری کروائی جاتی ہے۔غریب افرادکی شادیوں میں مدد اور دیگرفلاحی کام بھی کئے جاتے ہیں۔اسکے علاوہ سرسنگیت کی محفلیں بھی سجائی جاتی ہیٕں۔۔اپریل میں بھگت کنور رام میلہ اوراکتوبر سنتھ رام میلےمیں پاکستان کے علاوہ دنیا بھرسے ہزاروں ہزار ہندواورسکھ آتے ہیں۔۔۔ میلوں کے علاوہ یہاں آنے والوں کی سالانہ تعداد ایک لاکھ تک پہنچ جاتی ہے۔مکیش کا دل بھی یہاں سے جانے کو نہ تھا۔۔ سندھ کی دھرتی اس کے لئے ماں ہی توتھی جس کی آغوش میں سکھ تھا،،ٹھنڈک تھی،،،سکون تھا۔
واپسی پر مکیش کے دل میں ایک ہی خواہش تھی کہ۔۔۔۔اگر کرتاس پورراہداری کی طرح سندھ سے ہندوستان تک بھی ایک کوریڈور کھول دیا جائے تو اس جیسے کتنے ہی بھارتی ہندوں کو آسانی ہو جائے اور آسودگی کی ٹھنڈی چھاوں نصیب ہو جائے۔
پاکستان سے نکلتے ہوئے مکیش کے من کے مندر میں بھی آسودگی اورسکون کی پھوار تھی اور وہ من ہی من میں گنگنا رہا تھا کہ پاکستان ۔۔۔ واقعی پاک آستانہ ہے ۔۔۔۔روحانیت کا ۔۔۔سکون کا ۔۔۔۔ طمانیت کا ۔۔ اور امن کا!