جہاں ذات پات اور مذہب بےمعنی ہو جائیں

کیلاشی سیاہ گلابوں کی رنگین زندگی
August 27, 2022
معمارِکراچی ۔ پارسی کمیوٹنی کی خدمات
September 29, 2022

جہاں ذات پات اور مذہب بےمعنی ہو جائیں

      ( بلبیرسنگھ)

میں پنجاب کے اس حصے  میں سفر کر رہا تھا جہاں  سورج  تو غروب ہوتا ہے لیکن  انسانیت، محبت اور رواداری  کی روشنی بھی وہیں سے طلوع ہوتی ہے۔ اس   سڑک پر دوڑتی گاڑی کے ساتھ ساتھ  میرے دل کی رفتار بھی  ہمیشہ تیز ہوجاتی  ہے کیونکہ یہاں سکھ، ہندو ، مسلمان ۔۔۔ ایک  مذہبی ہستی کے لیے ایک ہوجاتے ہیں ۔  پنجاب  کا یہ شہر “کرتار پورصاحب”صدیوں سے آباد ہے جہاں سکھ مت کے پیشوا بابا گورو نانک جی نے اپنی زندگی کے آخری ایام گزارے۔

 

پاکستان  میں یہ  ایک ایسی جگہ جہاں ہر مذہب،، ذات، پات، نسل کے لوگ آتے ہیں اور ایک روحانی پیشوا سے ہم کلام ہو کر چلے جاتے ہیں۔

بابا گورو نانک جی 15 اپریل 1469 ء میں ”رائے بھوئے دی تلونڈی موجودہ سری ننکانہ صاحب“ میں پیدا ہوئے۔  بابا گورو نانک جی نے اپنی پہلی سانس سے ہی وحدانیت کا درس دیا۔ اس کا ثبوت بابا جی کا سکھ مت کی کتاب سری گورو گرنتھ صاحب میں درج ہے اور سکھ مت کے بنیادی کلام ”سری جپ جی صاحب“ میں بھی ملتا  ہے ۔ اس کلام کا آغاز ہی ”اِک اونکار“ یعنی ”خدا ایک ہے“ سے ہوتا ہے۔

ابا جی نے اپنی مکمل زندگی واحدانیت اور انسانیت کی تبلیغ میں گزار دی۔ اس کے واسطے بابا جی نے دنیا میں چار مختلف سفر کیے ۔ان کے ہر سفر کو ”اُداسی“  (آگاہی کا سفر) کا نام دیا گیا ہے۔ بابا جی نے چار اداسیاں کیں جس میں آپ  نے 39000 کلو میٹر کا سفر پیدل طے کیا۔ اس سفر کے دوران بابا جی کے بہت بڑے مسلمان مرید  ”مردانہ“ نے  انکا بھرپور ساتھ دیا۔  بھائی مردانہ جی ویسے بابا جی سے عمر میں کافی بڑے تھے لیکن اپنے آپ کو بابا جی کے سامنے بہت چھوٹا سمجھتے تھے۔ ان کی دوسری خوبی یہ تھی کہ وہ نہایت ہی عاجزانہ اور فقیرانہ اخلاق رکھتے تھے۔

بابا جی کا یہ سفر ، باون سالہ زندگی گزارنے کے بعد، 1521 ء میں کرتا پور صاحب“ پر ختم ہوا ، پھر یہیں  انھوں نے اپنی حیات کے آخری لمحات گزارے۔  بابا جی نے اس جگہ کا نام  خود ”کرتار پورا“  (رب کی جگہ) رکھا ۔ یہاں پہنچ کر  بابا گرونانک کے  سکھائے ہوئے  تین  اوپدیش   میرے سامنے زندہ تصویر  بن گئے۔  بابا گرونانک نے 1:کِرت کرو ( کماؤ لیکن ایمانداری کے ساتھ۔ )،  2:نام جپو (خدا تعالٰی کی حمد و ثنا کیا کرو۔ )،   3:ونڈ چھکھو (جو ہے، جتنا ہے مل بانٹ کر کھاؤ۔ )  کو کھیتی باڑی کرکے، رب کو یاد کرکے اور لنگر عام تقسیم کر کے عملی جامہ  پہنایا۔

یہ وہی جگہ ہے جہاں بابا گورو نانک نے 22 ستمبر 1539 ء اس فانی دنیا کو خیر آباد کہہ گئے۔ اس وقت دور دور سے لوگ بابا جی کے جسدِ خاکی کے دیدار کے واسطے آنے لگے۔   ا واقت بابا جی کی آخری رسومات پر تنازعہ کھڑا ہوا۔ کئی  مرید چاہتے تھے کہ ان کوانتم سنسکار ( نذرِ آتش کرنا) کیا جائے ۔ اس کے برعکس مسلمان  پیروں کاروں کاکہناتھا  کہ ان کے جسدِ خاکی کو خاک کے حوالے کر دیا جائے۔ اسی دوران ایک سیانے بندے نے بَلند آواز میں کہا کہ چلو بابا جی کی رائے جانتے ہیں۔ جب انہوں نے جسدِ خاکی سے چادر ہٹائی تو روایت کے مطابق بابا جی کا جسدِ خاکی وہاں پر موجود نہ تھا اور اس کی جگہ گلاب کی تازہ پنکھڑیاں تھیں جسے دیکھ کر وہاں پر موجود لوگ ششدر رہ گئے ۔ اس کے بعد ان لوگوں نے اس چادر اور پتوں کو دو برابر حصوں میں تقسیم کیا۔ ایک حصے کا انتم سنسکار کیا گیا اور ٹھیک اسی جگہ پر سمادھی بنا دی گئی، دوسرا حصہ دفن کیا گیا اور ٹھیک اسی جگہ قبر بنا دی گئی۔

 

اس واقعے کو ساڑھے چار سو سال سے زائد وقت گزر چکا ہے لیکن   آج بھی   میں نے گرونانک جی کے یومِ وصال پر سکون کے اس  گہوارے میں، کسی کو یہاں پر فاتحہ خوانی کرتے دیکھا، تو  کی کو  چادر چڑھا تے اور دیے جلاتے۔ کسی نے  دعا کے لیےہاتھ اٹھائے ہوئے تھے تو کوئی  ماتھا ٹیک کر پراتھنا  کرتا  نظر آیا۔     تمام مذاہب کے لوگ ایک رنگ میں رنگ جاتے ہیں  کیونکہ  بابا جی نے کبھی کسی کو مذہب کے نام پر نہیں بلایا  بلکہ انسانیت کو سب سے زیادہ ترجیح دی اورسب کو ایک رب کی عبادت کا درس دیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *