وہ ایک سہانی صبح تھی جب علی کے والدین اور چھوٹا بھائی اسے اٹھائے اسپتال میں حیران و پریشان کھڑے تھے۔ علی نے رات کےکسی پہر اپنی جان لینے کی کوشش کی تھی اور ابھی ڈاکٹر اس کے معدے کو صاف کرنے میں لگےہوئے تھے۔ فارنزک پولیس کا اہلکار بھی بیان لیے کے لیے ایک جانب کھڑا تھا۔ علی کے والد سوچ میں گم تھے کہ آخر کیا وجہ بنی جو ان کے زندگی سے بھرپور جوان بیٹے نے زندگی سے منہ موڑنے کی کوشش کی.
پاکستان کی نوجوان نسل کا تناسب اس وقت ملک کی آبادی میں سب سے زیادہ ہے لیکن دوسری عمر کے افراد کی طرح آج کے جوان بھی کئی پریشانیوں کا شکار ہیں۔ برٹش کونسل اور نیلسن تحقیقاتی ادارے کی رپورٹ بڑی تاریک پہلو کی جانب اشارہ کرتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق آج پاکستان کی نوجوان نسل حکومت سے مایوس ہے اور اپنے مستقبل سے بھی ناامید نظر آتی ہے۔ نوجوانوں کی اکثریت اس بات سے متفق ہے کہ ان کا ملک غلط سمت میں جا رہا ہے۔
یہ نسل اب روزگار کمانے کی عمر میں داخل ہورہی ہے اور پاکستان کی اقتصادی حالت کے پیش نظر اس میں سے بڑی اکثریت کو روزگار ملنے کا امکان نہیں ہے۔ اسی ذہنی دباؤ کے شکار علی نے بھی یہ قدم انتہائی مایوسی میں اٹھایا تھا۔ اسے اپنی زندگی کا فائدہ نظر نہیں آتا بلکہ روزگار کے لیے دکھے کھاتا تاریک مستقبل دکھائی دیتا تھا۔
علی کے اندر جب یہ مایوسی بڑھی تو اس میں خوداعتمادی کی کمی بھی پیدا ہوئی جو خودکشی کی ایک اور وجہ بنتی ہے۔ یہ جوان اپنے آپ کو حقیر سمجھنے لگتے ہیں جس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ بحیثیت معاشرہ ہم ان کو سراہتے نہیں ہیں بلکہ ان کی غلطیوں اور ناکامیوں کو نمایاں کرتے ہیں اور ان کے فیصلوں کو تنقید کا نشانہ بنائے رکھتے ہیں۔ بہت سے کیسز میں خودکشی مدد کی ایک درخواست ہوتی ہے، وہ جوان مرنا نہیں چاہتا بلکہ اپنی جانب توجہ مبذول کروانا چاہتا ہے۔
اقوام متحدہ کی نیشنل ہیومن ڈیویلپمنٹ رپورٹ کہتی ہے کہ مطابق پاکستان کی کل آبادی کا چونسٹھ فیصد تیس سال سے کم عمر افراد پر مشتمل ہے جو چند افریقی ممالک کو چھوڑ کر دنیا بھر میں دوسری بڑی نوجوان آبادی ہے۔ لیکن اتنی اہم آبادی کو اگر آگے بڑھنے، زندگی کی گاڑی چلانے کے لیے مواقع، ذرائع اور وسائل نہ میسر ہوں تو نہ صرف نوجوانوں کو بلکہ پورے معاشرے کو ناامیدی اور مایوسی گھیر لیتی ہے۔
قابل تشویش امر یہ ہے کہ ان نوجوانوں میں خودکشی کا جحان زیادہ پایا جاتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی دی گلوبل ہیلتھ ابزرویٹری کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں پندرہ سے چوبیس سال کے نوجوانوں میں کروڈ سوسائیڈ ریٹ سے اموات کا تناسب تیرہ عشاریہ پندرہ فی لاکھ ہے جس کے باعث پاکستان دنیا میں چھبیسویں نمبر پر کھڑا کر دیتا ہے۔ اسی طرح15 سے29 سال کی آبادی میں یہ ریٹ 14.74 فی لاکھ ہے ۔
آج ہمارے معاشرے کی اہم ضرورت ہے کہ علی سمیت تمام نوجوانوں کو مشکل حالات کا مقابلہ کرنے کی تربیت دی جائے۔ انمیں سماجی جذباتی زندگی کی مہارتوں کو فروغ دیا جائے،یہ ایسی مہارتیں ہیں جونو جوانوں میں استقامت پیدا کرتی ہیں، دوسروں کے ساتھ کام کرناسیکھاتی ہیں (مثلاً ملنساری) اور جذبات کا منظم کرنا سیکھاتی ہیں(برداشت کرنا)۔سماجی اور جذباتی مہارتوں کا حصول نوجوانوں کی مثبت نشوونما، تعلیم، صحت مند طرز زندگی ، ڈپریشن اور اضطراب میں کمی ، تشدد، تنازعات اور غصے میں کمی جیسے عوامل سے جڑا ہوا ہے
نوجوانوں میں پنپنے والے خودکشی کے رویوں کوبروقت شناخت کرلینے سے ایسے واقعات میں کمی آسکتی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اہلِ خانہ اپنے بچوں کی بات سنجیدگی سے لیں، ان سے مثبت انداز میں بات کریں اور مایوسی کی راہ پر جانے والی اولاد کو سائیکا ئٹرسٹ یا سائیکالوجسٹ سے علاج کروائیں ۔ گھر کا کوئی نہ کوئی فرد ایسا ضرور ہوتا ہے جو آپ کی بات سنتا اور اس کا حل نکالنے کی کوشش بھی کرتا ہے۔اگر کسی میں خودکشی کی علامات نظر آئیں تو گھر کے افراد ایسے شخص کو تنہا نا نہ چھوڑیں۔