می رقصم ۔۔۔ رقص درویش

نوجوان خاتون وکیل اور قانونی و سماجی آگاہی کا مشن
January 4, 2023
مسکراہٹیں بکھیرتی ، امن کے گیت گاتی ۔ کراچی کی یوتھ لیڈر
January 19, 2023

می رقصم ۔۔۔ رقص درویش

      (غلام مصطفیٰ )

 

اپنی ذات  کی گہرائیوں میں گم ، سفید لمبی گھیر دار عباوں  میں ملبوس ۔۔ بند آنکھوں اور روشن دل رکھنے والے  والے درویش ۔۔ ایک مخصوص  لے پر یکسانیت سے  گردش کر رہے ہیں ۔  جیسے  تیز بہتے ہوئے دریا میں کئی بھنور  ایک جگہ پر سرعت سے گھوم رہے ہوں ۔۔ اور دھیمے دھیمے عباوں  کے ہلکورے لیتے ہوئے  بھنور ایک دوسرے میں غائب ہو رہے ہوں ۔  نہ ہاتھوں  میں کوئی جنبش ۔۔۔ نہ  قدموں کے علاوہ کوئی حرکت ۔۔۔۔  دیکھنے والے کی محویت پر استعجاب  غالب آجا تا ہے ۔   یہ مناظر  ہیں  صوفیوں  کی سرزمین سندھ کے شہر حیدرآباد کے ۔۔۔ جہاں  مولائے روم کے چاہنے والوں  نے  صوفی میلہ  سجایا ۔۔۔ جو سندھ بھر سے  ان کے چاہنے والوں کو یہاں کھینچ  لایا ۔۔۔ ٹھٹھرتی ہوئی سردی میں  بھی رومی کے دیوانے ۔۔ رقص   درویش دیکھنے اور اپنے آپکو  کھوجنے  کیلئے  اس محفل  میں موجود رہے ۔ رقص  درویش ترکی کی آٹھ سو سالہ پرانی  تھذیبی روایت ہے ۔  یہ دراصل رومی سے عقیدت کا اظہار ہے ۔۔۔۔۔ ہم  بھی رومی کے ان  درویشوں کے درمیان اپنا اندر ٹٹولتے ہوئے موجود تھے ۔

 

رومی کہ یہ درویش سفید نوری لباس پہنے

ناف سے نیچے نفس عمارہ کی سیاہ بختی کو باندھے

اینٹی کلاک وائز ایک ھزار ایک دن تک بلکل ایسے رقص کرتے ہیں جیسےسورج اینٹی کلاک وائز گھومتا ہے

جیسے زمین اینٹی کلاک وائز گھومتی ہے

جیسے چاند اینٹی کلاک وائز گھومتا ہے

جیسے خانہ خدا کا طواف اینٹی کلاک وایز کیا جاتا ہے

گویا ساری کائنات اینٹی کلاک کے اسی کلیےپر خانہ خدا کا طواف کر رہی ہے اور رومی کے یہ درویش کائنات کے ساتھ محو رقصاں ہیں۔ یہیں  یہ  احساس بھی  ہوا کہ۔۔۔ ہمیں سورج کے گرد ایک چکر پورا کرنے میں تقریباًساڑھے365دن لگتے ہیں۔ ان چکروں کے چکر میں ہم سورج سے اپنے لئے ضرورت کی حرارت اور روشنی لیتے ہیں۔۔۔مگر ہم ۔۔۔بہ یک وقت کرکٹ کی پھینکی گیند کی طرح خود اپنے گرد بھی گھومتے رہتے ہیں۔ اپنے ہی گرداِس”رقصِ درویش“ کے ایک چکر پورا کرنے میں ہمیں 24گھنٹے لگتے ہیں۔

کائنات  کے ساتھ محو رقصاں  یہ درویش ۔۔۔۔ دایاں ہاتھ او پرفضا میں بلند کئے ۔۔۔ خدا سے لیتے ہوئے ۔۔۔۔۔بایاں ہاتھ نیچے زمین رخ ۔۔۔ مخلوق خدا کو گیان بانٹتے ہوئے۔۔۔۔۔۔ سفید رنگ کے لبادے، سیاہ جبے اور سر کے لمبے صافے سب زندگی سے موت تک کے سفر کی علامتیں ۔۔۔۔جو یہ درویش زیب تن کرکے جھومتے ہیں ۔ اور ان کا سفر اپنے محوریعنی خالق کائنات کی طرف ہوتا ہے۔۔۔۔ اور یہ سب   سراغ زندگی پانے کی جستجو میں ڈوب رہےہوتے ہیں۔اور ہمارے جیسے محو تماشا بھی وجد میں آجاتے ہیں۔۔۔۔۔۔ایسا لگتا ہے کائنات سے کنکشن جڑ جاتا ہے ۔

عجب ہے اُس کا رویّہ، سپُردگی نہ گریز

جو مہرباں بھی ہوا،اس طرح ، گماں نہ ہوا

میں اُس کے دھیان کی کن منزلوں پہ رہتا ہوں

وہاں بھی اُس کو ہی پایا ہے، وہ جہاں نہ ہوا

یہی رقص درویش ۔۔ترکی کے شہر قونیا  میں رومیؒ کےمقبرہ کے قریب   ہر ھفتے منعقد ہوتا ہے ۔ انکے مزار کے قریب ہی ایک عمارت ہے ۔۔۔۔ جہاں مولائے روم کے یہ   درویش محفلِ سماع منعقد کرتے ہیں اور ان پر عجیب و غریب کیفیت طاری ہوتی ہے۔ اس کو سماع خانہ کہا جاتا ہے۔ ترکی میں یہ اس لفظ کا تلفظ Semahane کیا جاتا ہے۔

 

مولائے روم کہتے ہیں

“محبت کے بغیر ہر موسیقی شور ہے ، ہر رقص پاگل پن ہے اور ہر عبادت بوجھ ہے.”

رومیؒ کی زندگی میں عظیم روحانی انقلاب ۔۔ اور ۔۔۔ حقیقت ذات سے  اصل شناسائی اس وقت حاصل ہوئی جب وہ  اپنے  مرشد شمس تبریز سے آشنا ہوئے  ۔ اور پھر ان کے ایسے گرویدہ ہوئے کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر حضرت شمس تبریز رحمۃ اﷲ علیہ کے پیچھے ہو لئے ۔ اور ان  ہی کی طرح ہو گئے ۔  انہیں  راز حقیقت اور سر ذات کا وہ چرکا لگا کہ فلسفہ ذات آپ کی زبان پر مشاہدہ ذات کی صورت میں اٹکھیلیاں کھیلنے لگا۔

تصوف ۔۔۔۔۔سستی، کاہلی اور رہبانیت نہیں ہے ۔۔۔بلکہ کام اورمسلسل جدوجہد کا نام ہے، سخاوت کانام ہے- اگر بندے اللہ کے اسیر نہ ہوں تو وہ سونے چاندی کے اسیر ہو جاتے ہیں- – مولائے روم  کہتے ہیں کہ وقت کی مشکلات کی شکایت کرنا بند کرو جو شخص مشکلات سے نہیں گزرتا وہ مکمل انسان نہیں بنتا- کیا تم نہیں جانتے جب دریا کا پانی پتھر سے ٹکرائے تو میٹھا اور لذیذ ہو جاتا ہے-

شاعرِ مشرق علامہ اقبالؒ نے مولانا رومیؒ کو اپنا پیر تسلیم کیا ہے اور ان دونوں شخصیات کے درمیان پیر و مرید کا رشتہ تھا۔ علامہ اقبال انھیں ’’پیر رومی‘‘ کہا کرتے تھے اور خود کو ازحد انکسار سے ’’مرید ہندی‘‘ کہا کرتے تھے۔

اقبال اعتراف کرتے ہیں کہ:

پیرِ رومی خاک را اکسیر کرد

از غبارم جلوہ ہا تعمیر کرد

(میں تو ایک غبار راہ تھا اور اس غبار راہ کو تعمیر کرنا رومی کا کمال تھا)- ایسا لگتا ہے کہ اس روحانی تعلق میں دونوںایک ہیں اور  دونوں کی تعلیمات کی بنیاد، معاشرے میں اعتدال اور میانہ روی ہے۔۔ 1960ءکے اواخر اور 1970ء کے اوائل تک مولانا رومی اور سعدی دینی مدارس کے نصاب کا حصہ ہوا کرتے تھے۔

یقینا مثنوی مولائے روم تصوف کا شاہکار ہے ۔ مولانا رومی جیسے آفاقی صوفی فلاسفر کو فکر کے کسی ایک  تنگ دھارے میں مقید کرنا تصوف اور فلسفے کی پوری تاریخ کے ساتھ نا انصافی کے مترادف ہے۔

مولانا جلال الدین رومیؒ کا ایک قطعہ ہے کہ :

تا در طلب گوهر کانی کانی
تا در هوس لقمهٔ نانی نانی
این نکتهٔ رمز اگر بدانی دانی
هر چیزی که در جستن آنی آنی

(اے انسان اگر تو کسی موتی کی جستجو میں ہے تو وہ موتی تو خود ہے- اگر تو روٹی کے نوالے کی جستجو میں لگا ہوا ہے تو تیری حیثیت بھی روٹی کے ایک نوالے سے بڑھ کر نہیں ہے- اگر تو حکمت اور دانائی کا یہ نکتہ جان لے تو سمجھ جائے گا- تو جس چیز کی تلاش میں لگا ہوا ہے یا جس چیز پر تیری توجہ ہے تو باطنی طور پر خود وہی چیز ہے-)

2005 میں مولانا رومی کے 800 ویں جشن پیدائش پر ترکی کی درخواست پر اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے 2007 کو رومی کا بین الاقوامی سال قرار دیا اور ایک تمغہ بھی جاری کیا۔ اور تب سے صوفی درویشوں کیاس  روایت کو انسانیت کے ایک لازوال ورثےکا درجہ حاصل ہے۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *