پچاس برس سے انصاف کی متلاشی پاکستانی خاتون کی کہانی

امن و رواداری کا پیغام پھیلانے والا نوجوان مذہبی اسکالر
January 21, 2023
ہندو میرج ایکٹ اور نوجوانوں پراس کے اثرات
January 31, 2023

پچاس برس سے انصاف کی متلاشی پاکستانی خاتون کی کہانی

      ثناء انعام

 

ان جھریوں بھری آنکھوں  میں اب خواب مرنے کو ہیں۔ کئی دہائیاں قبل   لاہور کی  رہائشی  طاہرہ سلطانہ نے یہ سفر طاقت اور جوانی میں 33 سال کی عمر میں شروع کیا، اس یقین کے ساتھ کہ انصاف کی یہ جنگ بالآخر  وہ جیت جائیں گی۔  انہوں  نے اپنے شوہر کی جائیداد میں اپنے جائز حصے کے ذریعے مالی استحکام حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن قدم بہ قدم  ناکامی کا سامنا رہا۔

اکیانوے سالہ  طاہرہ سلطانہ  گذرے وقت کو یاد کرکے اکثر آ بدیدہ ہو جاتی ہیں ۔ طاہرہ کے خاوند میجر ایس ایس راشد الحامدکا 1964  میں انتقال ہوا تب تین ننھے بچوں کے ساتھ   طاہرہ زندگی کی اذیتوں ، مصیبتوں اور پریشانیوں کا سامنا کرنے کے لیے بالکل تیار نہیں تھیں۔ انُ کے مرحوم شوہر کی لاہور میں جوائنٹ پراپرٹی تھی جس میں  طاہرہ صاحبہ کا بھی حصہ بنتا تھا ۔  طاہرہ کے والد نے وراثت میں حصہ لینے کے لیے بات چیت کیبارہا  کوشش کی جو ہمیشہ ناکام رہی۔ چناچہ انہوں نے 1970 میں لاہور کے سول کورٹ میں مرحوم شوہر کی وراثت کا مقدمہ دائر کر دیا۔

طاہرہ سلطانہ کے مطابق اُنکا کیس سیشن اور ہائی کورٹ سے ہوتا ہوا سپریم کورٹ پہنچا اور 2002میں یہ فیصلہ آیا کہ چونکہ جائداد بہت بڑی ہے، اسے ایک فرد نہیں خرید سکتا اور نہ ہی اسے تقسیم کیا جاسکتا ہے، اس لیے جائداد کی  نیلامی کی جائے اور نیلامی کے تحت خریدنے والے کو اسکا قبضہ دیا جائے۔ طاہرہ صاحبہ اس فیصلے سے خوش تھیں ، لیکن انہیں قطعی یہ احساس نہیں تھا کہ جائداد کی نیلامی بھی نہیں ہو سکے گی ۔

اکیانوے سالہ بیوہ جو گزشتہ 22 سال سے اپنی جائیداد میں حصہ داری کے حوالے سے سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل درآمد کی منتظر ہیں۔ اب تک، سپریم کورٹ کے دو فیصلوں کے باوجود ان کے حق میں، نفاذ کی کمی نے طاہرہ کو وراثت سے محروم رکھا ہوا  ہے۔   ان اذیت بھرے سالوں میں طاہرہ   نے اپنی بیٹی کو کھو دیا  جو  ایک معذوری کا شکار تھی اور بیوہ ماں اس کی طبی ضروریات پوری کرنے کی استطاعت  کھو چکی تھی، ان  کے پاس موجود رقم  کورٹ کچہریوں کے نظر ہوگئی تھی  اور ان سب سے بڑھ کر  طاہرہ  نے پاکستان کی عدلیہ اور انصاف کی فراہمی پر سے اپنا اعتماد اور فخر کھو دیا۔

2011 میں خواتین مخالف طرز عمل کی روک تھام  کے بِل  میں ترمیم تو کر دی گئی، جو خواتین کو وراثتی جائیداد میں مساوی حقوق دیتا ہے، لیکن ایک رپورٹ کے مطابق 80 فیصد سے زائد خواتین کو وراثت میں قانونی حصہ نہیں مل سکا۔ 26 ستمبر 2022 کو، اس کے نفاذ کے لیے پنجاب انفورسمنٹ آف ویمنز پراپرٹی رائٹس ایکٹ 2021 کے سیکشن 7 کے تحت محتسب پنجاب(Ombudsperson) کے سامنے ایک مہم چلائی۔ قومی کمیشن برائے انسانی حقوق نے وفاقی محتسب کو خط لکھ کر اس ناانصافی کے خلاف آواز اٹھائی ہے  اور سوشل میڈیا مہم میں بھی شامل ہے ۔

طاہرہ سلطانہ کی کہانی اس حقیقت کو اجاگر کرتی ہے کہ عدالت کے ذریعے جائیداد کے حقوق کا دعویٰ کرنا ایک عورت کے لیے ایک مشکل سفر ہے لیکن بیوہ کے لیے یہ سفر اس سے کہیں زیادہ کٹھن ہے۔ ہمارے ملک میں نہ جانے کتنی ایسی خواتین ہیں جنہیں وراثتی جائداد میں اُنکا حصہ نہیں مل رہا ، وجوہات چاہے جو بھی ہوں ضرورت اس امر کی ہے کہ عورتوںسے متعلقہ نہ صرف جائداد بلکہ تمام تر سماجی اور قانونی مسائل کے حل کے لیے مؤثر ، ٹھوس اور بر وقت اقدامات عمل میں لائے جائیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *