مذہب سے بڑی ہے انسانیت

ہمیں کھلے دماغ سے مختلف عقیدوں کے لوگوں کو قبول کرنا ہے – محمد سلیم
April 30, 2023
کھیل برائے امن دستاویزی فلم کا آفیشل ٹریلر
May 6, 2023

   (سعدیہ مظہر )

 

یہ 2019 کی بات جب مجھے نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور کی جانب سے ایک صحافتی فیلو شپ کے لیے پاکستان سے چنا گیا۔ ایشین جرنلزم فیلو شپ کے اس تین ماہ کے پروگرام میں تقریبا 16 ایشیائی ممالک سے صحافیوں کا انتخاب کیا گیا تھا۔ سفر جتنا لمبا تھا اتنا ہی مشکل بھی۔ میرے لیے سب سے پہلا خوف یہی تھا کہ مجھے تین ماہ جس اپارٹمنٹ میں رہنا تھا اس میں میرے ساتھ ایک سری لنکا کی صحافی کالنی اور منگولیا سے آئی صحافی کھولن تھیں۔ علاقے کا فرق، زبان کا فرق ، مذہب کا فرق اور رہن سہن کا فرق ۔ بس اسی خوف نے ذہن کو عجیب مشکل میں ڈالے رکھا۔

سنگاپور پہنچنے پر میرا استقبال میرے اپارٹمنٹ میں کالنی نے کیا۔ تین لوگ، ایک فریج، ایک کچن ، وہی کامن برتن اور ساتھ ہی باقی تیرہ دوست جو بھارت، چین، بھوٹان، لاوس، میانمار، انڈونیشیا اور کاذکستان سے آئے تھے ۔

پہلا روز شروع ہوا تو کچھ بات چیت کا سلسلہ بڑھا اور میں نے کالنی اور جے شری کے ساتھ  اپنی پہلی گروسری شاپنگ کی کہ پیٹ کا ایندھن بھرنا سب سے زیادہ اہم ہے۔

ہمارا فریج مشترکہ  تھا اس لیے ہم تینوں جو بھی لاتے اسی فریج میں ہوتا ۔ ایک روز اچانک مجھے فریج سے عجیب سی بدبو محسوس ہوئی۔ بعد میں پتہ چلا کہ فریج میں خنزیر پڑا ہے جو کہ کھولن اور کالنی شوق سے کھاتے تھے۔ مجھے کوفت ہوئی مگر چپ رہی کہ ان کی پسند بھی مقدم تھی۔

مجھے پہلے دو ہفتوں میں یہ احساس ہوا کہ دوسرے مذاہب کے تمام دوست مجھ سے کچھ فاصلے سے ملتے تھے ۔ایک نامعلوم جھجھک تھی جو سمجھ سے بالاتر تھی مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب دوستی بڑھی تو میرے بھوٹان کے دوست،  جو بدھ مت تھا ،نے کہا کہ ہمیں مسلمانوں سے ڈر لگتا ہے۔ اس لیے ہم آپ سے دور رہتے تھے کیونکہ مسلم ہمارے لباس ، مذہب اور سرگرمیوں پر ہمیشہ تنقید کرتے ہیں لیکن اب مجھے پتہ چلا کہ آپ تو ایسی ہو ہی نہیں۔

کالنی،  بدھ مت سے ہے اور کھولن ملحد۔ ہماری فریج میں خنزیر آنا اچانک بند ہو گیا کیونکہ کالنی اور کھولن کو یہ پتہ چل گیا کہ مسلمانوں کے لیے یہ گوشت حرام ہے۔ یہ صرف احساس اور محبت کی وجہ سے ہوا۔ ہم ایک ڈائنگ ٹیبل پر بیٹھ کر کھاتے تھے اور مجھے ہمیشہ کالنی کے ہاتھ کے بنے کھانے بہت پسند آتے تھے اس لیے میں اس کی پلیٹ سے کھاتی تھی۔ ایسا کرنے کی ایک وجہ وہ جھجھک دور کرنا بھی تھا جو میرے اور ان کے درمیان تھی۔

وہ اب دوست مل کر بیئر پارٹی کرتے تھے مگر میرے لیے سافٹ ڈرنک لانا نہیں بھولتے تھے ۔ مجھے کبھی ان کی ان پارٹیز سے کوفت نہیں ہوئی۔ ہم ڈانس کرتے تھے، کلب جاتے تھے، مندر جاتے تھے ، چرچ جاتے تھے اور مسجد بھی جاتے تھے مگر ایک ساتھ۔

کالنی اور ویکٹوریہ دونوں مجھے مومی بلاتی تھیں کیونکہ مجھے بچے بہت یاد آتے تھے لیکن نجانے کب انکا مجھے مومی بلانا ہمارے تعلق کو بہت مضبوط کرتا گیا۔ وہ تین ماہ جو ایک طویل عرصہ لگ رہے تھے ، ہاتھ سے ریت کی طرح پھسلنے لگے۔ ہم نے ان تین ماہ میں ایک دوسرے کے مذاہب کا احترام کرکے ، ایک ساتھ صرف محبت سے رہ کر یہ سیکھا کہ انسانیت سے اور محبت سے بڑا کوئی مذہب نہیں۔

واپسی کا سفر اتنا تکلیف دہ ہو گا یہ اندازہ ہی نہیں تھا۔ ہم سب کو یہ خوشی تو تھی کہ ہم واپس گھر جا رہے ہیں مگر یہ دکھ اب زیادہ بڑا تھا کہ ہم ایک دوسرے سے اب دوبارہ کب مل پائیں گے۔ ہم روئے، پہلے ایک دوسرے سے آنکھیں چرا کر اور پھر ایک دوسرے کے گلے لگ کر۔

ہم اب بھی ساتھ ہیں۔ ہم ایک دوسرے کو محسوس بھی کرتے ہیں۔ مجھے کالنی کے بنائے پاستا کی خوشبو اب بھی آتی ہے، جے شری کے مصالحہ ڈوسہ اور مصالحہ چاے کا مزہ اب بھی میری زبان پر ہے، ہیلینا کے گائے گانوں کا ٹوٹا پھوٹا اردو ورژن مجھے اداسی میں اچانک مسکرا نے پر مجبور کر دیتا ہے۔

میرے نام کو اچانک ان کے انداز میں کوئی بھی پکارے تو دل کی دھڑکنیں اچانک تیز ہو جاتی ہیں اور میں آنکھیں بند کر لیتی کہ پلٹ کر دیکھوں تو کاش میرے اے جے ایف کی فیملی کا کوئی ممبر ہو۔

ہم نے بدھ مت، ہندو، ملحد اور مسلم سب کو یہ کر کے دکھایا کہ مذاہب خون خرابے کے لیے نہیں صرف پہچان اور آپکے عقیدے کے لیے ہیں۔ سب سے بلند تر صرف محبت اور انسانیت ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *