بلند حوصلوں سےگندھی آئل والی آنٹی کی کہانی

مذہبی ہم آہنگی کی جیتی جاگتی تصویر
July 18, 2023
معذوری کو طاقت بنانے والا پاکستانی نوجوان
July 27, 2023

بلند حوصلوں سےگندھی آئل والی آنٹی کی کہانی

    (نمرہ اکرم)

 

آئل بدلنا ہو یا ٹائر پنچر لگانا ہو یہ سب کام مردوں کے سمجھے جاتے ہیں لیکن میرے لیے یہ تھوڑا حیران کُن تھا جب میں نے اپنے بھائی سے یہ سُنا کہ وہ اپنے بائیک کا آئل بدلوانےمکینک کے پاس گیا۔آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اس میں حیران ہونے والی بھی کیا بات ہےتو آگے سُنیے ! وہ مکینک ایک مرد نہیں بلکہ خاتون ہیں ۔ یہ سُن کر میرے اندر ان کو جاننے کی جُستجو پیدا ہوگئی کہ انہوں نے کیسے اور کیوں اس شعبے میں قدم رکھا۔ میں نے سوچا کہ کیوں نا اس خاتون سے خود ملا جائے تو پتا چلاکہ یہ خاتون کراچی کے علاقے رنچھوڑلائن میں آئل بدلنے کا کام کرتی ہیں۔

جب عورت کی زندگی میں کمانے والا ایک ہی سہارا ہو اور وہ بھی اُس سے چھین جائے اور اپنے بھی منہ موڑ لیں تو مشکلات اور تکلیفیں ہی باقی رہ جاتی ہیں لیکن جب عورت ان سب آزمائشوں کا ڈٹ کر سامنا کرنے کی ہمت کر لے تو وہ معاشرے کے لیے ایک مثال بن کر ابھرتی ہے اور اسے کئی بھی آگے بڑھنے سے نہیں روک پاتا۔ایسی ہی کچھ کہانی جمیلہ خاتون کی ہے جن کی کہانی انہی کی زبانی سُنے میں پہنچی رنچھوڑلائن۔

کراچی کے اس پرانے اور گنجان علاقے میں جمیلہ خاتون آئل والی آنٹی کے نام سے جانی جاتی ہیں۔ جمیلہ 35 سال سے زائد عرصے سے گاڑیوں کا آئل بدلنے کا کام کر رہی ہیں۔ شوہر کے بھری جوانی میں گزر جانے کے بعد وہ بالکل اکیلی ہو گئیں اور پورے گھر کی ذمے داری اُن کے کندھوں پر آن پڑی۔ نہ تعلیم ، نہ سسرال اور میکے والوں کا ساتھ، ایسے میں روزگار کے ذرائع بہت محدود ہوگئے، تب جمیلہ نے ہمت کرتے ہوئے اپنےمرحوم شوہر کا موٹر بائکس اور رکشوں وغیرہ کا آئل بدلنے کا کام سنبھالا ۔ زندگی کی گاڑی کھینچنے کے لیے انہوں نے ساتھ ساتھ اخبارات بیچے، برگر کا ٹھیلا لگایا تو کبھی پکوڑے سموسے بیچے اور کبھی رکشہ بھی چلایا ، اب بھی وقت ملنے پر جائیداد کی خرید و فروخت یعنی اسٹیٹ ایجنٹ کے طور پر کام کرتی ہیں ۔

مردوں کے معاشرے میں جہاں بہت سی عورتیں اکیلے باہر نکلنے میں جھجھک محسوس کرتی ہیں ، وہاں جمیلہ خاتون مردوں کی مارکیٹ میں بیٹھ کر روزانہ مردوں سے ہی ڈیل کرتی ہیں۔ گاڑیوں ، بائکس کا تیل بدلنے کے ساتھ ساتھ انجن کی سروس بھی کرتی ہیں۔ ان پینتیس برسوں میں جمیلہ نے نہایت مشکل حالات کے ساتھ ساتھ لوگوں کے غلط اور منفی رویوں کا سامنا بھی کیا ۔ وقت کے ساتھ جمیلہ کا انسانیت پر سے بھروسہ ٹوٹ گیا لیکن اپنے خالق اور رازق کی ذات سے تعلق گہرا ہوتا گیا۔ اسی لیے پہلے اپنے اکلوتے  بیٹے کو تعلیم دلانے کا خواب پورا کیا ۔ ساتھ دینے والا بیٹا بھی جلد ہی موت کے وادی میں جا سویا جس کے بعد بھی جمیلہ خاتوں اپنے پوتے پوتیوں کے لیے اسی حوصلے اور ہمت کے ساتھ زندگی کی گاڑی  کھینچ رہی ہیں۔

مجھے اُن سے مل کر ایسا محسوس ہوا کہ وہ اُن باہمت خواتین میں سے ایک ہیں جنہیں لوگوں کی منفی باتوں اور رویوں نے توڑا نہیں بلکہ ہمت ہارے بغیر اپنے مشکل حالات کا سامنا کرتی رہیں۔ جمیلہ خاتون کے لیے زندگی کی تلخ حقیقتوں کو رو کر نہیں بلکہ ہنس کر سامنا کرنے کا نام ہی کامیابی ہے۔ آج وہ جس محنت اور لگن سے کام کرتی ہیں لوگ اُن کے کام کو پسند کرتے ہیں۔انکی ایمانداری سے مطمئن افراد دوسرے لوگوں کو انکا پتہ یتے ہیں اور کراچی کے لوگ آئل والی آنٹی کو ڈھونڈتے رنچھوڑ لائن کے سڑک کنارے پہنچ جاتے ہیں۔

جمیلہ اور ان جیسی بےشمار باہمت خواتین جو مردوں کے شانہ با شانہ کام کر رہی ہیں وہ ہمارے معاشرے کی خوبصورت مثال ہیں کہ خواتین بھی کسی سے پیچھے نہیں اور ہر قسم کے حالات کا سامناکرسکتی ہیں معاشرے کو چاہیے کہ وہ جمیلہ جیسی خواتین کے حوصلے کی پزیرائی کرے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *