لیاری کی باہمت باکسر لڑکیاں
حجاب میں لپٹی مریم بڑی پھرتی سے اپنے ہاتھ پیر چلا رہی تھی، اس کا ہر انداز اتنا جارحانہ تھا کہ اپنے سامنے کھڑی حریف کو اس نے چند منٹوں میں ہی گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا ۔ مریم کو دیکھ کر کسی بھی عورت کے اندرمقابلے کا، جان کی بازی لگا دینے کا جوش پیدا ہوسکتا ہے اور اس وقت میری یہی کیفیت تھی۔ میں محلے کی کسی جھگڑے میں نہیں پھنسی ہوئی تھی بلکہ کراچی کے علاقے لیاری کے ایک باکسنگ کلب میں بیٹھی مزے سے لڑکیوں کا کھیل دیکھ رہی تھی۔
لیاری جہاں کے نوجوان فٹ بال اور باکسنگ کو جنون کی حد تک پسند کرنے کے لیے مشہور ہیں ہی، اس علاقے کی لڑکیاں بھی باکسنگ کے اکھاڑے میں اب نظر آنے لگی ہیں۔ 1992ء میں یونس قمبرانی نے کراچی کے علاقے لیاری میں پاک شاہین باکسنگ کلب کی بنیاد رکھی اور پھر 2013 میں پہلی بار خواتین کو باکسنگ سکھانے کا آغاز کیا۔ گو اس کھیل کے مواقع پاکستان میں عموماً لڑکوں کو ہی ملتے ہیں لیکن لیاری کا پاک شاہئن باکسنگ کلب گزشتہ آٹھ سال سے لڑکیوں کی تربیت کر رہا ہے۔ یہ تربیت نہ صرفب باکسنگ کی دنیا میں ان کے خوابوں کو پورا کررہی ہے بلکہ ہی ساتھ ساتھ اُنہیں با ہمت بنانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ مجھے اُن باکسرز سے مل کر اس بات کا اندازہ ہوا کہ ایسی کوئی مشکل نہیں جس کا مقابلہ یہ لڑکیاں نہ کر سکیں۔
پاکستان کی کسی لڑکی کے بوکسنگ جیسے شعبے کو اپنانا آسان نہیں، کلب کی بچیوں کو روزانہ معاشرے کے منفی ریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن ان باہمت لڑکیوں کے گھروالے بھی بڑے جی دار ہیں، معاشرے کی باتوں کو نظرانداز کر کے وہ اپنی باکسر بچیوں کے مستقبل کو روشن دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان لڑکیوں کے والدین اور باپ جیسے کوچ کی حوصلہ افزائی سے ہی ان کا ہر دن فتح کا سورج لے کر نکلتا ہے۔ والدین اپنی بیٹیوں کو خود باکسنگ کلب چھوڑنے اور لینے آتے ہیں اور مختلف مقابلوں میں اکھاڑے کے باہر کھڑے اپنی بیٹیوں کا حوصلہ بڑھاتے ملتے ہیں ۔
والدن کے بھرپور تعاون کی وجہ سے ہی اس کلب کے کوچیز ان بچیوں کو آگے بڑھنے کے لیے بہترین داؤ پیچ سکھانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ کبھی لڑکوں اور کبھی سینئرز کے ساتھ مقابلے کرنے سے ان لڑکیوں کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے ، کل ہر کسی سے ڈرنے والی لڑکیاں آج اپنی حفاظت کرنا بھی سیکھ چکی ہیں اور کسی کو بھی زیر کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں۔
یہاں آنے والی بچیاں مختلف مذاہب و قوموں سے تعلق رکھتی ہیں لیکن کلب میں بغیر کسی رنگ و نسل کے فرق کے ساتھ رکھا جاتا ہے اور بچیاں بھی اس میں فرق کیے بغیر ایک دوسرے کی مدد کرتی ہیں۔
دوستی، محبت اور عزت کے اسی رشتے نے کلب کی بچیوں کو اندرون ملک اور عالمی کھیلوں میں پاکستان کی نمائندگی کرنے کے مواقع فراہم کیے آج ان بچیوں کا خواب ہے کہ وہ یہاں سے سیکھے ہوئے داؤو پیچ عالمی سطح میں آزما ئیں اور ملک کا نام روشن کریں۔ پسماندگی، غربت اور سہولیات کے فقدان کے باوجود مریم اور اس کی ساتھی باکسرز اپنے گیم میں تو پرجوش دکھائی دیتی ہیں لیکن اپنےاس کھیل میں وہ کامیابی کی کتنی منازل طے کر سکیں گی ، اس حوالے سے وہ غیر یقینی کا شکار ہیں۔ ماضی میں لیاری کے حسین شاہ، حسین جان اور اللہ بخش جیسے باصلاحیت کھلاڑیوں کو نہ صرف حکومتِ پاکستان نے مکمل طور پر نظرانداز کیا بلکہ باکسنگ فیڈریشن نے بھی ان ستاروں امتیازی سلوک روا رکھا۔
مریم اور اس کے ساتھ کھیلتی لڑکیوں کی ہمت و حوصلہ اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ وہ بھی کسی سے پیچھے نہیں اور بوکسنگ جیسے مشکل ترین شعبے میں بھی اپنی پہچان بنا رہی ہیں ۔ ضروری یہ ہے کہ اب ہمیں بھی تہذیب یافتہ معاشرہ اور باشعور پاکستانی ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے ۔