کراچی کی اس تاریخی گلی میں پیدل چلتے دکانداروں اور گاہکوں کا شور اور مسلسل ٹھک ٹھک کی آوازیںمیرے کانوں میں پڑ رہی تھیں لیکن میرے ذہن کے نہاں خانوں میں کلاسیکل موسیقی کی دھنیں گونج رہی تھیں۔ نصف صدی پہلے یہاں پر آباد موسیقی کی دُنیا آج بھی مجھے ماضی سے جڑے حال کی جانب لیے جا رہی تھی۔ صدر میں ریڈیو پاکستان کی عمارت کو بھلا کون نہیں جانتا یہاں کبھی فنکار اپنے سُر بکیھرا کرتے تھے، کبھی اپنے سازوں سے تو کبھی گیت، غزل اور کبھی نغموں کی صورت ۔
لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ ریڈیو پاکستان کے قلب سے ایک فنکار گلی بھی گزرتی ہے اور اسی گلی میں چونسٹھ سال پرانا سلیم اینڈ سنز کے نام سے موجود میوزک ہاؤس کا پاکستانی موسیقی کی تاریخ میں الگ ہی مقام ہے۔ اسے محمد سلیم نے 1956ع میں قائم کیا۔ یہ میوزک ہاؤس پاکستان کے ان گنت نامور فنکاروں، گلوکاروں اور اُن کے ساز سے نکلتی دُھنوں سے آج بھی جڑا ہے۔
ریڈیو پاکستان کے عروج کے دور میں یہاں موسیقی کی نئی نئی دھنیں بنتی رہیں اور موسیقار کام کرتے رہے،صداکار و گلوکار اپنے فن کا جادو جگاتے رہے اور یہ دکان ان عظیم فنکاروں کی خدمت کرتی رہی، ان کے سازوں کی مرمت کا کام یہیں ہوتا رہا۔ ساٹھ اور ستر کی دہائی میں موسیقی باقاعدہ صنعت کی شکل اختیار کر چکی تو موسیقی کے نئےآلات بھی اس دکان میں سج گئے۔
صرف یہی نہیں محمد سلیم نے تقریبا سب نامور گلوکاروں اور فنکاروں کے آلات کی مرمت کی۔ اُن میں میڈم نور جہاں، نصرت فتح علی خان، مہدی حسن صاحب،پرویز مہدی صاحب،میڈم فریدہ خانم، خان مہدی علی خان، ان کے بھائی پنڈت غلام قادر، امراؤ بندو خان صاحب سارنگی نواز خود بھی آئے اور ان کے ہارمونیم اور ستار وغیرہ بھی ۔ فن کی دنیا کے یہ ستارےکام میں وقفے کے دوران ریڈیو پاکستان کی عمارت سے نکل کر اس میوزک ہاؤس پر بیٹھتے ،سامنے ایک ایرانی ہوٹل سے چائے منگوا کر پیتے اور گپ شپ کرتے۔ چائے کی پیالیوں کی کھنک اور عظیم فنکاروں کی گفتگو سے رونق سی لگ جاتی ۔ یہ وہی فنکار گلی ہے جہاں سے عمر شریف، معین اختر، خالد نظامی، فرید خان ماجد جانگیر، شہزاد رضا، رزاق راجو جیسے ستارے ابھرے۔
اس میوزک ہاوس کو یہ بڑا اعزاز بھی حاصل ہے کہ احمد غلام علی چھاگلہ صاحب نے جس ہامونیم پر قومی ترانے کی دُھن ترتیب دی تھی اسکی درستگی کا عمل بھی محمد سلیم کے ہاتھوں سے گزرا۔ آج یہ ہامونیم ایک یاد کے طور پر حیدرآباد کے موزیم میں رکھا ہوا ہے جس پر سلیم اینڈ سنز کا لوگو نصب ہے۔
ماضی سے نکل کر تھوڑا حال کی طرف چلیں تو منظر بدل جاتا ہے ۔۔۔آج اس فنکار گلی میں فنکاروں کی جگہ آٹو موبائل کی دکانیں لے چکی ہیں۔جہاں موسیقی کی جگہ گاڑی کے اوزاروں کی ٹھک ٹھک نے سنائی دیتی ہے، لیکن سلیم اینڈ سنز کی دکان آج بھی موسیقی کے سازوں سے سجی ہوئی ہے اور گزرے ہوئے خوبصورت دنوں کی یاد دلاتی ہے۔ محمد سلیم تو نہ رہے لیکن ان کی میراث کو اب اُن کے تین بیٹے آگے لے کر چل رہے ہیں۔ ہارمونیم، ستار اور طبلوں کی جگہ اب گیٹار اورمغربی آلات کی مرمت بھی ہونےلگی ہے ۔ سلیم کے وارث اپنے کاروبار کو بڑھا کر درآمدات و برآمدات تک لے گئے ہیں۔ لیکن یہ حالات سے تھوڑا نا امید بھی نظر آتے ہیں ۔ ان کے بیٹے محمد وقار عباس کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے موسیقی آلات کو لگژری اشیاء میں شامل کر دیا گیا ہے اور ان پر اتنے ٹیکس لگا دیے گئے ہیں کہ ان آلات کے خریدار کم سے کم ہوتے چلے گئے۔ پھر انٹرنیٹ پر دستیاب میوزک کے آسان اور مفت استعمال نے جہاں مقامی فنکار کو متاثر کیا وہیں سلیم اینڈ سنز کی رونقیں بھی مدھم پڑ نے لگی ہیں ۔
موسیقی کے سنہری دور کی یادوں کو سنبھالے محمد سلیم کےبیٹے آج اس آس میں بیٹھے ہیں کہ حکومت موسیقی کے آلات سے بھاری ٹیکس ہٹائے تو ان کا کاروبار چلے اور عام آدمی بھی اپنا شوق پورا کر سکے۔