رات کی تاریکی ابھی چھٹتی بھی نہیں ۔۔۔ کہ وہ سینکروں کی تعداد میں اپنے خواب ادھورے چھوڑ کر زمانے کے گرم وسرد کا مقابلہ کرنے نکل پڑتی ہیں ۔ کہ ان کے پاس نہ تو اچھے مستقبل کے خواب ہیں اور نہ خواب دیکھنے کے لئے نرم و گرم بستر…ان کی جھولی میں کچھ ہے تو بس ان گنت صدیوں کے تاریک بہیمانہ طلسم ہیں ۔۔۔ ہندو کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی یہ عورتیں مردوں کی طرح پو پھٹنے سے پہلے ہی اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کے لیے کام کی تلاش میں نکل پڑتی ہیں۔
حیدرآبادمیں قائم سبزی منڈی میں عورتوں کی ایک بڑی تعداد کام کی تلاش میں آتی ہے۔ یہ عورتیں ہندو کمیونٹی سے تعلق رکھتی ہیں جن کی تعداد 300 تک ہے۔ مشقت سے عبارت ان خواتین کا دن صبح 4 بجے شروع ہوتا ہے ۔۔اور وہ منڈی پہنچ جاتی ہیں، جن میں سے زیادہ تر عورتیں سبزیوں کی چھانٹی کرتی ہیں جبکہ دیگر کھیتوں سے سبزیاں لیکر یہاں بیچنے کے لیے آتی ہیں۔ سبزیاں بیچنے والی عورتیں تو صبح سات بجے تک سبزی بیچ کر چلی جاتی ہیں لیکن پیاز، آلو اور ٹماٹر کی چھانٹی کرنے والی مزدور عورتیں گھنٹوں منڈی میں بیٹھی رہتی ہیں کہ کوئی انہیں کام کے لیے بلائے یا کوئی ٹھیکیدار ان کو مزدوری پہ لگا دے۔ لیکن یہ کام ہر روزان کی قسمت میں نہیں آتا اوراکثر ان کا سارا دن کام کے انتظارمیں گزرجاتا ہے۔
ہالا ناکہ کے قریب قائم اس سبزی منڈی میں ہوسڑی بائے پاس، حیدرآباد شہر اور ریلوے کالونی سے مزدور عورتیں کام کے لیے آتی ہیں۔ منڈی میں یہ عورتیں صبح سے شام گئے تک کام کا انتظار کرتی رہتی ہیں۔ اگر کام مل جائے تو ان کا دن اچھا گزرتا ہے اور اگر نہ ملے تو کرائے اور کھانے کا خرچہ بھی انہی کی جیب سے جاتا ہے۔اور انکے گھر فاقوں کی گنتی میں ایک اور کا اضافہ ہو جاتا ہے ۔
ڈگڑی کی مکین تلسی جو اپنی عمر کی 45 بہاریں دیکھ چکی ہیں ۔۔۔ کے پاس اور کوئی کام نہیں ہے اس لیے وہ منڈی میں کام کرنے آجاتی ہیں مگر اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہوتی کہ انہیں کام مل جائے گا۔ یہاں کام سست رفتاری سے چلتا ہے اور سیزن اگر اچھا ہو تو کام بھی اچھا مل جاتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہاں آنے کا کرایہ بھی تقریباً 50 روپے تک لگ جاتا ہے، یہ کرایہ ہمیں منڈی کی انتظامیہ ادا نہیں کرتی ہے بلکہ ہمیں خود ادا کرنا پڑتا ہے،جس کا بوجھ بھی ہم پر آتا ہے۔
50 سالہ شانتی کی نظر میں زندگی کی گاڑی چلانے میں، مرد کا ساتھ دینے کے لئے عورت کا ۔۔ کام کرنا بری بات نہیں مگر مسئلہ تب ہوتا ہے جب یہاں آنے کے بعد کسی کو کام نہ ملے ۔شانتی کے مطابق ایک دن کی مزدوری صرف 300 روپے ہوتی ہے لیکن جب سردیاں آتی ہیں تو کام بڑھ جاتا ہے اور ان دنوں میں انہیں 700 سے 800 روپے دہاڑی مل جاتی ہے۔
غربت اور اقلیتی کمیونٹی سے تعلق، ان مزدور عورتوں کو سب ہی کے لیے آسان ہدف بنادیتے ہیں۔ مجبوری کے تحت وہ رات کو دیر تک بھی مزدوری کرتی ہیں اور بھانت بھانت کے مردوں سے ان کا واسطہ پڑتا ہے ۔ ہوس زدہ نظروں کا مقابلہ کرتی یہ سینکروں خواتین اس طرح کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔ 28 سالہ رادھا جو چند سالوں سے منڈی کام کرنے آ رہی ہیں ۔۔۔ عدم تحفظ کا شکار ہیں، کہتی ہیں کہ ہم کام کے دوران تین سے چار ہزار مردوں کے بیچ میں ہوتے ہیں، لہٰذا حراساں کیے جانے کا خوف ہمیشہ رہتا ہے۔ لیکن ہمیں ان حالات میں بھی کام کرنا پڑتا ہےکیونکہ ہمارے گھر میں اتنے کمانے والے نہیں۔
انسانی حقوق کی کارکن پشپا کماری کے مطابق ان غریب عورتوں کے ساتھ حراساں کیے جانے کے واقعات زیادہ ہوتے ہیں مگر ان میں سے متاثرہ خواتین شکایتیں درج نہیں کرواتیں، جس کی بڑی وجہ ان کی پولیس اور انتظامیہ پہ بےاعتبار ی ہے۔ انہیں یہ بھی خوف ہے کہ اگر انہوں نے کسی بیوپاری کے خلاف شکایت کی تو اس کا روزگار چھن جائے گا۔ اس لیے وہ خاموش رہنا بہتر سمجھتی ہیں۔ سندھ ہندو کاؤنسل کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر امرشی سے ملاقات کے دوران اکثر عورتیں ہراسمینٹ کے واقعات پہ بات کرتی ہیں، مگر جب تھانے کی بات آتی ہے تو وہ قانونی قدم اٹھانے سے کتراتی ہیں۔
عام دونوں میں ملنے والی مزدوری میں سے 100 روپے ان کے کھانے اور کرائے پہ خرچ ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی معاشی حالت غیر متوازن ہو جاتی ہے۔ حیدرآباد کی منڈی میں مرد حضرات ہی حاوی ہیں اور تمام تر انتظامات وہ ہی سنبھال رہے ہوتے ہیں۔ ان مزدور عورتوں کے لیے کوئی ایسا لائحہ عمل تیار نہیں کیا گیا کہ انہیں روزانہ کی بنیاد پر کام مل سکے۔
فروٹ اینڈ ویجیٹیبل ایسوسی ایشن کے صدر الطاف میمن کے مطابق سبزی منڈی میں 234 جبکہ فروٹ منڈی میں 270 تاجر کام کرتے ہیں۔ یہاں 2000 سے زائد مزدور کام کرتے ہیں۔ میری ذمہ داری ان مزدوروں کی دیکھ بھال اور کام کو دیکھنا ہے اور ان کے مسائل کا حل ڈھونڈنا ہے۔ یہاں مزدورں کی سکیورٹی کے لیے گارڈ ہیں اور ایک پولیس چوکی بھی بنی ہوئی ہے لیکن جب بات آتی ہے خواتین مزدورں کی۔۔۔ تو یہ ماشا خوری کے زمرے میں آتی ہیں،۔( ماشا خور وہ ہیں جو آرتی والوں (ہول سیلر) سے 30 یا 50 کلو سبزی خرید کرکے آگے کلو یا 10 کلو کے حساب سے فروخت کرتے ہیں انہیں ریٹیلر بھی کہا جاتا ہے)۔ان سے ہمارا ڈائریکٹ کوئی رابطہ نہیں ہوتا۔ یہ اپنی مرضی سے یہاں کام ڈھونڈنے آتی ہیں اور اپنا کام کرکے چلی جاتی ہیں۔
طرح طرح کی حراسانی کو سہتی ہوئی ان خواتین مزدور وں کے لیے منڈی میں کوئی سہولت موجود نہیں ۔ نہ یہاں کوئی شیڈ بنایا گیا ہے جہاں بیٹھ کر یہ کام کر سکیں اور نہ ہی ان کے لیے واش روم جیسی بنیادی سہولت موجود ہے۔ اس کے علاوہ صفائی نہ ہونےکی وجہ سے مختلف بیماریاں لگنے کا خطرہ الگ ہے۔ ان کی کوئی یونین بھی نہیں ہے۔ اس لیے ان پہ ہونے والے مظالم میڈیا پہ نمایاں نہیں ہوتے۔ کام کی آس لگائے آج بھی یہ عورتیں صبح سورج طلوع ہوتے ہی سبزی منڈی پہنچ جاتی ہیں اور تمام تر مسائل کے باوجود اپنے خاندان کے پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے ہر مشکل کا سامنا کرتی ہیں۔
12 Comments
Religious minorities faced lot of trouble in thier life. Dear Ashook this untold story is quite different writeup
Great Dear
Bhtrern piyara
آپ بہت اچھا کام کر رہعے ہیں، ایک اچھے موضوع پہ کام کیا ہے۔
thnx alot
بھترین
2 good dear bro
A story based on facts, which is a reflection of people living with the pain of centuries, great Ramani Sahib
Nice story
bhtreen
Nice
Good job