حیدرآباد کی سونار گلی میں آج بھی ایک ایسا قدیم مندر موجود ہے، جسے آباد دیکھنے کے لیے ہندو برادری منتظر ہے۔ ان میں سے کئی آنکھیں اب بوڑھی ہو چکی ہیں، مگر زنگ لگے تالے اور مٹی میں سے ڈھکے دروازے آج بھی مندر پر قبضے کی کہانی سنا رہے ہیں۔ مائی گنگا مندر کا قبضہ رئیس خان کے پاس ہےجوکہ کئی دھائیوں سے اس مندر کی چابی اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں۔
مائی گنگا مندر کی تاریخ کے حوالے سے کوئی تختی نہیں لگی ہوئی مگر یہاں کے مکینوں کا کہنا ہے کہ یہ مندر برِصغیر کے وقت قائم تھا، سونار گلی میں اُس زمانے میں ہندؤوں کی آبادی زیادہ تھی اسی لیے انہوں نے اپنی عبادت کے لئےیہ مندر تعمیر کروایا تھا۔
مندر کی ملکیت کا دعویٰ کرنے والے حیدرآباد کے رہائشی رئیس خان کا کہنا ہے کہ “تقسیمِ ہند کے بعد یہ مندر ان کے خاندان کو ملا ۔ اس مندر میں مورتیاں بھی تھیں جو لوگ نکال کر لے گئے۔ آج بھی کئی بلڈرز ہیں جو پلازہ تعمیر کرنے کے لیے اس مندر کے پلاٹ میں آنکھیں گاڑے ہوئے ہیں ۔ مندروں اور دوسری عبادت گاہوں کا نگراں ادارہ محکمہ او قاف ہر سال اسے صرف دیکھنے آتا ہے اور معائنہ کرکے چلا جاتا ہے”۔
ان کا مزید کہنا کے کہ” ماضی میں اس مندر میں داخل ہونے کے لیے چار عدد سیڑھیاں بھی تھیں جو گلی کی بار بار تعمیر اور بھرائی کی وجہ سے منہدم ہوگئیں۔ 8 سال قبل اس مندر کی قیمت 5 کروڑ لگائی گئی تھی۔ لوگوں کا ماننا ہے کہ یہاں کوئی خزانہ گڑا ہوا ہے۔ اس مندر کے ساتھ ہمیں رہائش کے لیے ہندؤوں کا چھوڑا ہوا ایک گھر بھی ملا ہے”۔
اسی طرح حیدرآباد کے سوچی محلہ میں راما پیر کے دو عدد مندرآج بھی موجود ہیں، ان میں سے ایک مندر 1928 میں تعمیر ہوا تھا، جن کی دیکھ بھال آج بھی ہو رہی ہے، دونوں مندر مشترکہ ہندستان کے زمانے میں تعمیر ہوئے لیکن ہندستان میں بابری مسجد کے واقعے کے بعد ان کی اصل عمارات کو تباہ کر دیا گیا، جس کے بعد انہیں دوبارہ تعمیر کیا گیا ۔
کالی ماتا مندر حیدرآباد کے پوجاری مٹھو مہاراج کا کہنا ہے کہ سندھ میں مندروں پہ قبضے یا ان میں رہائش اختیار کرنا آج کی بات نہیں ہے یہ سلسلہ تقسیم ِ ہندکے بعد شروع ہوا اور آج تک جاری ہے۔ حیدرآباد میں کئی ایسے خوبصورت مندر تھے جنہیں جان بوجھ کر تباہ کیا گیا یا ان پہ قبضہ کیا گیا ہے۔ سندھ مذہبی رواداری کے حوالے سے اپنی الگ شناخت رکھتا ہے۔ اگر یہاں اس قسم کے عمل ہو رہے ہیں تو یہ یہاں بسنے والے ہندؤوں سے زیادتی ہے کیونکہ آج تک کسی ہندو نے غیر ہندو کی عبادت گاہ پہ قبضہ نہیں کیا۔ پریٹ آباد، پھلیلی واہ اور فقیر جو پڑ میں لوگوں نے رہائش اختیار کی ہوئی ہے۔ ہم نے محکمہ اوقاف کو کئی بار کہا ہے کہ حیدرآباد میں قائم قدیم مندروں کا قبضہ ختم کروایا جائے مگر اب تک اس پہ کوئی عمل ہوا ہے اور نہ ہی ہمیں کوئی جواب دیا گیا ہے۔
سماجی کارکن امرشی ٹھاکر کہتے ہیں کہ ” کالی ماتا مندر پہ تجاوزات کے خلاف کمشنر کو درخواستیں دیں مگر تاحال کچھ نہ ہوسکا ۔ حیدرآباد کی ریشم بازار، چھوٹکی گھٹی، پھلیلی، پریٹ آباد، مارکیٹ، پکہ قلعہ کے علاقے میں کئی مندروں پہ قبضہ ہے۔ گزشتہ حکومت میں اقلیتی امور کے صوبائی وزیر گیان چند ایسرانی سے مطالبہ کیا گیاکہ ان مندروں سے قبضہ ختم کرایا جائے مگر ہمارے مطالبے کو سنا ہی نہیں گیا۔ ہمارے لیے یہ قبضے ختم کرانا مشکل ہے۔ یہ اویکیو ٹرسٹ کی ذمہ داری ہے، ان سے بات کی جاتی ہےکہ یہاں کتنے مندروں پہ قبضہ ہے تو جواب یہ ملتا ہے کہ کسی مندر پہ کوئی قبضہ نہیں ہے”۔
1895 میں ٹنڈو ولی محمد میں قائم کیے گئے شو مندر کو 1945 میں دوبارہ تعمیر کیا گیا تھا، اس کے نقش و نگار بھی ویسے ہی رکھے گئے ۔ اراضی کے لحاظ سے یہ مندر اُس زمانے میں کافی وسیع تھا لیکن اب بلڈر مافیا نے آس پاس عمارات تعمیر کر لی ہیں، مندر کی ایک دکان پہ بھی قبضہ ہو چکا ہے۔ جس پر مندر کی انتظامیہ بے بس دکھائی دیتی ہے۔
سونار گلی کے رہائشی 71 سالہ فاروق احمد برسوں سے گنگا ماتا مندر کو دیکھتے آ رہے ہیں، کہتے ہیں کہ ہم نے اپنی بچپن اور جوانی کے دنوں میں اسے بند دیکھا ہے۔ آج تک کسی بھی ہندو نے یہاں آکر پوجا نہیں کی۔ ہمیں یاد ہے کہ بچپن میں یہ مندر سیڑھیوں کی وجہ سے اونچا تھا لیکن آج اس کی بنیادیں گلی کے ساتھ ساتھ ہیں۔ یہ مندر آباد ہونا چاہیے، اس میں نہ صرف ان لوگوں کو کردار ادا کرنا چاہے جن کے سپرد یہ مندر ہے بلکہ سندھ حکومت کو بھی دلچسپی لینی چاہیے جو اس مندر کو آباد کرنے سے کترا رہی ہے۔
سندھ ہندو کاؤنسل کے چیئرمین سورج کوہستانی جہاں مندروں پہ قبضے کو اچھا عمل نہیں سمجھتے ہیں، وہیں پجاریوں کے حالیہ کردار سے بھی نالاں ہیں۔ سورج کوہستانی کے مطابق “ہمیں مندروں کے پوجاریوں کے کردار کو بھی دیکھنا ہوگا، جنہوں نے مندر کے ساتھ 6،6 گھر بنا رکھے ہیں، جبکہ انہیں صرف ایک گھر رکھنے کی اجازت ہے، باقی زمین مندر کی ہوتی ہے۔ سرے گھاٹ، سرکٹ ہاؤس، شاہی بازار کے مندروں پہ شیوادھاریوں کا قبضہ ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان مندروں کا آڈٹ ہونا چاہیے اس حوالے سے ایک کمیٹی تشکیل دینی چاہیے۔ جتنے بھی مندر لوگوں کے قبضے میں ہیں، ان کو اویکیو ٹرسٹ کی حوالے کرنا چاہیے تاکہ یہ عظیم ورثہ محفوظ ہو سکے”۔
کسی بھی ثقافتی ورثے پہ قبضے کے بعد تجاوزات ہٹانے کے لیے قانونی طور پر کئی راستے موجود ہیں۔ اس حوالے سے ہائیکورٹ حیدرآباد کے وکیل شنگر میگھواڑ کا کہنا ہے کہ “مندر، مذہبی جگہ ہے ، یہاں تجاوزات سے نمٹنے کے لیے اینٹی انکروچمینٹ کے اداروں کو کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے 2014 میں کیا گیا جسٹس تصدق حسین جیلانی کا فیصلہ موجود ہے جسکے مطابق مندروں سےتجاوزات ہٹا کر انہیں اصل شکل میں بحال کیا جائے اور انہیں عبادت کے لیے کھول دیا جائے۔ تجاوزات کے سیکشن 16 کے مطابق جس نے بھی تجاوزات کی ہیں اس کے خلاف ایف آئی آر درج کرانا لازمی ہے ، مندر مینجمنٹ کمیٹی اس میں اپنا کردار ادا کرے، اور اینٹی انکروچمینٹ ایکٹ 2010 کے مطابق کارروائی کرنی چاہیے”۔
اس معاملے پہ بات کرتے ہوئے حیدرآباد میں موجود اویکیو ٹرسٹ کے ڈپٹی ایڈمنسٹریٹر رشید احمد تنیو، مندروں پہ قبضوں کو ریسٹلمینٹ کا نام دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہندوستان کی تقسیم کے بعد وہاں سے آنے والوں کو سندھ کے کئی شہروں میں آباد کیا گیا۔ اس وقت حیدرآباد میں بھی ہندؤوں کے چھوڑے ہوئے مندروں میں انہوں نے رہائش اختیار کی۔ ہمارا ادارہ 1960 سے ان عمارتوں کی دیکھ بھال کر رہا ہے۔ یہاں پہ جو لوگ مندروں اور گردواروں میں رہائش پذیر ہیں ، وہ آج بھی 800 روپے کرائے کی مد میں ہمارے محکمے کو ادا کرتے ہیں۔
حیدرآباد میں اس وقت بیس مندر موجود ہیں جن میں سے 7 مندر ایسے ہیں جو تباہ حال ہیں یا کسی کے قبضے میں ہیں۔ اگر محکمہ اوقاف سنجیدگی سے مندروں کی بحالی کا کام جلد سے جلد کروا کر انہیں حیدرآباد کے ہندوؤں کے حوالے کرے۔۔۔ تو ایک طرف یہ تاریخی ورثہ محفوظ ہو جائے گا اور دوسری جانب یہاں مذہبی روادری کی فضا ہمیشہ کے لیے قائم رہے گی۔
7 Comments
Thnx alot
Mandron Sy kabza khtm kro
Ashok Bhai bhtreen story ki h
good story
Bhtreeen job dear
2 good dear
Bhtreen story