لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام، آفاق کی اس کارگہ شیشہ گر ی کا

حیدرآباد کی مذہبی عبادت گاہیں ، سندھ کی رواداری اور قبضے
September 16, 2023
کراچی میں یہودیوں اور پارسیوں کی تاریخی رہائش گاہ
September 28, 2023

لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام، آفاق کی اس کارگہ شیشہ گر ی کا

  (اشوک رامانی)

حسین دوشیزائیں نازک اور نفیس چوڑیاں   بڑے ناز و نخرے  سے پہنے اٹھکیلیاں کرتی نظر آتی ہیں لیکن کانچ کو  خوبصورت شکل  دےکر خوبصورت چوڑیاں بنانے والے  اور ان کے ہاتھ ۔۔۔نازک اور نفیس نہیں۔ آگ سے کھیلتے ہاتھ ، زمانے کی سختیاں جھیلتے عادی بدن اور انکی زندگیاں بہت تلخ ہیں۔کانچ سے ہاتھوں کو زخمی کرتی ہوئی یہ مزدور خواتین روز کس عذاب سے گزر تی  ہیں، یہ چوڑیاں پہننے والی خواتین کبھی نہیں جان پائیں گی۔ چوڑی کی تیاری کس طرح ہوتی ہے اور یہ کن کن مراحل سے گزر کر مارکیٹ اور پھر خریداروں تک  پہنچتی ہیں، یہ جاننا بھی ضروری ہے۔

حیدرآباد میں چوڑی سازی کی صنعت اس ملک کی بڑی صنعتوں میں شمار ہوتی ہے۔ شہر میں 26 کے قریب چوڑی ساز کارخانے ہیں، جن میں سے اس وقت 20 کام کر رہے ہیں۔ ہر فیکٹری میں 60 سے 70 مزدور نسل در نسل سے اس روزگار سے جڑے ہیں۔ چوڑی سازی کا کام کارخانوں کے علاوہ گھروں میں بھی یہ کیا جارہا ہے۔ ان مزدور وں کی ایک بڑی تعداد حیدرآباد کی لیاقت کالونی کے چوڑی پاڑہ میں کام کرتی ہے جہاں سات بھٹیوں میں کانچ پگھلایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ شہر کے کچھ دوسرے حصوں، جیسے کہ لطیف آباد، اسلام آباد چوک، گجراتی پاڑہ اور سائٹ ایریا، میں بھی 30 سے زیادہ بھٹیاں موجود ہیں ۔

چوڑی بنانے کے لیے کانچ جمع کرنے سے چوڑی کی پیکنگ تک 35 مرحلے ہیں جو آسان نہیں کیونکہ چوڑی بنانے کا کام جہاں نفاست مانگتا ہے وہاں خاصا خطرے والا بھی ہے۔ آگ پر تیار ہونے والی یہ چوڑیاں ان ہاتھوں کی محنت ہے جو کہ تیاری کے مرحلے کے دوراں جھلس بھی جاتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ ٹی بی سے لیکر، جوڑوں کے درد اور بینائی کے مسائل بھی ان مزدوروں کو درپیش ہوتے ہیں۔

حیدرآباد میں چوڑی کے کارخانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کی یونین کی جنرل سیکرٹری عرفانہ عبدالجبارکا کہنا ہے کہ حیدرآباد میں 450 کے قریب خاندان  اپنے اپنے گھروں میں چوڑیاں بناتے ہیں جن میں عورتوں کی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔ وہ  خود بھی چوڑیاں بناتی رہی ہیں۔ اگرچہ ان کے عمر صرف 44 سال ہے لیکن وہ کہتی ہیں کہ “اب میری صحت اس قابل نہیں رہی کہ اس کام کو جاری رکھ سکوں کیونکہ  اسے کرتے وقت میرے جوڑوں میں شدید تکلیف ہوتی ہے جبکہ ان دنوں میں سانس کی تکلیف کا سامنا بھی کر رہی ہوں”۔

حیدرآباد کے ایک معالج ڈاکٹر پریم کمار مالھی کا بھی یہی کہنا ہے کہ ”چوڑی بنانےوالے مزدوروں میں سب سے عام مسئلہ الرجی کا ہوتا ہے۔ کام کے دوران کئی کیمیکلز استعمال کرنے کی وجہ سے انہیں گلے اور ناک میں الرجی کی شکایات رہتی ہیں۔ ان کارخانوں میں کام کرنے والی ہر 10 میں سے 2 عورتوں کو اس قسم کی الرجی ہوتی ہے جس کی وجہ سے انہیں آگے چل کر دمہ بھی ہو جاتا ہے۔ گلے میں سوزش اور درد کی شکایات بھی عام ہیں“۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ ”یہ الرجی صرف گلے تک محدود نہیں رہتی ہے بلکہ اس سے ان کی چھاتی بھی متاثر ہوتی ہے۔ الرجی کے کیسز عورتوں میں زیادہ پائے گئے ہیں “۔

ان کے مطابق “یہاں کسی بھی فیکٹری میں ڈسپینسری موجود نہیں جبکہ کسی بھی کام کرنے والی جگہ پر ڈسپینسری کا ہونا لازمی ہے۔ اس کے علاوہ ہر قسم کی احتیاطی تدابیر اختیار کرنا بھی لازمی ہے مگر پاکستان میں اس ضمن  میں  تربیت نہیں دی جاتی ہے، جس کی وجہ سے فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدوروں کی صحت اور بھی بگڑتی رہتی ہے“۔

حیدرآباد کی رہائشی لچھمی بائی گزشتہ 15 سالوں سے حیدرآباد کی ایک فیکٹری میں کام کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ” دن کے کئی گھنٹے آگ کے سامنے کام کرنے کی وجہ سے جسم پسینہ پسینہ ہو جاتا ہے اور یہاں پہ کوئی ڈاکٹر بھی نہیں ہوتا۔ اگر کسی مزدور کی طبیعت خراب ہو جائے تو کوئی طبی امداد نہیں ہوتی”۔ ان کے مطابق انہیں اس تمام کام کے روزانہ  600 روپے ملتے ہیں۔

حیدرآباد کی رہائشی سیتا کماری بھی گزشتہ 7 سالوں سے چوڑی کے کارخانے میں ملازمت کر رہی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ یہ کام بہت مشکل ہے اور اسے کرتے ہوئے آپ کو ہر وقت چوکس رہنا پڑتا ہے کیونکہ آپ کو آگ کے قریب رہنا ہوتا ہےاگر چوڑی بناتے وقت شیشہ اچھل کر جسم کے کسی حصے پہ گر جائے تو وہ حصہ جھلس جاتا ہے”۔ ان کے مطابق یہاں “ایسے بھی واقعات ہوئے ہیں کہ مزدوروں کی آنکھوں میں کانچ چلے گئے”۔

یہاں کام کرنے والی خواتین مردوں کے ساتھ کام کرتی ہیں اور اکثر ہی ہراسانی کے خوف میں گھری  رہتی ہیں۔ سیتا کماری 16 سالہ کرن میگھواڑ کا واقعہ بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ اسے چوڑی کے کارخانے میں کام پر جاتے ہوئے اغوا کیا گیا تھا۔ لہٰذا، یہاں کام کرنے والی تمام خواتین خوف کا شکار رہتی ہیں کہ کوئی انہیں اغوا نہ کرلے”۔

چوڑی مزدوروں کی یونین کی رکن شکیلا خان کہتی ہیں کہ صرف جنسی ہراسانی  ہی نہیں بلکہ چوڑیاں بنانے والے مزدوروں “کو کسی قسم کا بھی تحفظ حاصل نہیں ہے، نہ تو انہیں کوئی سوشل سیکیورٹی دی جاتی ہے اور نہ ہی ان کے لئے صحت کی کوئی سہولت موجود ہے۔ یہاں بہت سے ایسے حادثات ہوئے ہیں جن میں لوگ معذور بھی ہو چکے ہیں مگر آج تک کارخانہ مالکان کی جانب سے کسی بھی قسم کا کوئی تحفظ  یا معاوضہ فراہم نہیں کیا گیا”۔

لیکن ان کا کہنا ہے کہ ان خطرناک حالات کار کے باوجود “اگر یہ لوگ کام نہیں کریں گے تو ان کے گھر کا چولہا نہیں جلے گا”۔

حیدرآباد میں انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے ڈاکٹر اشوتھاما  نے ان حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ”چوڑی مزدوروں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ انہیں مزدور ہی تصور نہیں کیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے ان کے حقوق بھی تسلیم نہیں کیے جاتے ہیں۔ اگر ان کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آتا ہے یا کبھی اپنےمسائل لے کر عدالت میں جاتے ہیں تو ان سے پوچھا جاتا ہے کہ کیا ان کے پاس ملازمت کا کوئی ثبوت ہے جو  ان کے پاس  نہیں ہوتا”۔

ان کے مطابق یہ مزدور ان ٹھیکیداروں  کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں جو انہیں کارخانوں میں نوکریاں لے کر دیتے ہیں۔ یہ ٹھیکیدار ان مزدوروں سے کسی قانون کے مطابق نہیں بلکہ اپنی مرضی سے کام لیتے ہیں۔ اس لیے انہیں کام بھی زیادہ کرنا پڑتا ہے اور ان کی تنخواہ بھی کم ہوتی ہے۔ ڈاکٹر اشوتھاما کہتے ہیں کہ “ہم نے اس حوالے سے  صوبابی حکومت کو سفارشات بھیجی ہیں کہ ان مزدوروں کے لیے کوئی قانون سازی کی جائے تاکہ انہیں کم از کم مزدور تو تصور کیا جائے اور ان کے دیگر مسائل حل کرنے میں آسانی ہو سکے”۔

سندھ کے لیبر ڈیپارٹمنٹ کے سابقہ اسسٹنٹ ڈائریکٹر محمد زبیر کا کہنا ہے کہ ”ہمارے ہاں مزدوروں کے مسائل کے حوالے سے شکایات نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں”۔ دوسری طرف وہ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ لیبر ڈیپارٹمنٹ نے کبھی چوڑی مزدوروں کے تحفظ کے لیے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے۔ ان کے خیال میں چوڑی فیکٹریوں میں حالات کار کے نامناسب ہونے کی بنیادی وجوہات غربت اور بیروزگاری ہے جن کی بنا پر لوگ کم اجرت پر بھی کام کرنے کو تیار ہیں۔ اسی لیے  “فیکٹری مالکاں کو  بھی پرواہ نہیں ہوتی کہ کوئی مزدور کام چھوڑ جائے گا تو دوسرا انہیں نہیں مل سکے گا”۔

شیشے کو ہنرمندی سے زیورات میں تبدیل کرنے والی یہ خواتین  یقینا اپنی سانسیں  روک کر زمانے کی خوبصورتی کا سامان فراہم کرتی ہیں ۔ شاید اسی لئے میر تقی میر نے کہا تھا کہ

لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام

آفاق  کی  اس  کارگہ  شیشہ گری  کا

 

7 Comments

  1. Ashok Ramani says:

    Thnx alot

  2. jani khaskheli says:

    good story ashok ramani

  3. jani khaskheli says:

    good story

  4. Hafeez Magai says:

    Wah wah zbrdst keep it up

  5. Aijaz khoso says:

    Good story

  6. Fazil channa says:

    Good dear

  7. Akhtar Hafeez says:

    zbrdst Article

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *