سندھ کے خانہ بدوش ہندو قبیلے

تھرپارکر میں سودی کاروبار اور اس کے معاشرتی اثرات
October 16, 2023
صبح کی گود سےشام کی آغوش تک۔۔۔ ہمارے گھروں کو سجاتے چھالوں بھرے ہاتھ
October 26, 2023

  (میندھرو کاجھروی)

سندھ کی شاہراہوں  پر ۔۔۔ گدھوں پر سامان لادے ۔۔۔ ایک منزل سے دوسری منزل کی جانب نقل مکانی کرتے  ایسے لوگ اکثر  آپ نے دیکھے ہوں گے ۔ یہ سندھ کے وہ ہندو خانہ بدوش قبیلے ہیں  جو  صدیوں پرانی روایات اور ثقافت   کا  سفر طےکرتے ہوئے زندگی  کی گاڑی کو گھسیٹ رہے ہوتے ہیں ۔  سندھ کے ایسے  26 خانہ بدوش ہندو قبیلے آج بھی ستم ظریفی کا شکارہیں۔ ان میں میگہواڑ، بھیل، کولہی، اوڈ، بھٹ، چارن، ریباری، والمیکی، لوہاریہ، باگڑی، چارا، جوگی، سانسی، شکاری، راوڑی، بانوری، بجانی، گواریہ، گرگلا، کوکڑی، جھنڈاوڑہ، رپڑی، کونچڑا، کبوترہ، بڑھا شامل ہیں جو اکثر  نیشنل ہائی وے، سپرہائی وے، انڈس ہائی وے، قومی شاہراہ اور رابطہ سڑکوں پرگدھوں پر سامان لاد کر ایک جگہ سے دوسری  جگہ رزق  کی تلاش میں سرگرداں  نظر آتے ہیں ۔

ان میں بارہ قبیلے ایسے ہیں جو آج  تک نہ ا پنا گھر  بنا سکے اور نہ ہی  اپنے بچوں کو تعلیم دلوا سکے ۔ جبکہ چودہ  قبیلے خانہ بدوشی کی زندگی سے چھٹکارا حاصل کر چکے ہیں، جن میں میگہواڑ، بھیل، کولہی، اوڈ، چارن، بھٹ، باگڑی، والمیکی، گواریہ، لوہاریہ، باگڑی اور جوگی شامل ہیں۔   تھرپارکر میں آباد میگہواڑ، بھیل، کولہی، اوڈ، بھٹ اور چاراں قبیلے کے لوگوں نے تعلیم یافتہ اور  باشعور شہریوں  کی صف میں اپنی جگہ بنالی ہےافوج میں بھی بھرتی ہونا شروع ہوگئے ہیں۔

1915میں ننگرپارکر سے تعلق رکھنے والے میگہواڑ برادری کے پہلے تعلیم یافتہ فرد ہرجی مل میگہواڑ تھے جبکہ دوسرے نمبر پر چیلہار کی خاتون لالی بائی میگہواڑ تھیں ۔ 1915ع سے 1933ع تک اس قبیلے کے بچوں نے نسل پرستی اور مذہبی انتہا پسندی کا شکار ہوتے ہوئے تعلیم حاصل کی، جب دوسرے بچے بینچوں پر بیٹھتے تھے تو یہ دور فرش پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرتے تھے۔

:شاندار ماضی

سن اٹھارہ سو تیرالیس سے لے کر 1859تک روپلو کولہی جو خانہ بدوش قبیلے سے وابسطہ تھے، انگریزوں کے خلاف بغاوت کی، جس کے ساتھ لادھو میگہواڑ بھی شامل تھے، ننگرپارکر کے کارونجھر پہاڑ پر چھ ماہ تک انگریزوں سے لڑتے رہے ،اور پھر  پکڑے جانے کے بعد انہیں اذیتیں دے کر  شہید کر دیا گیا۔

رائے گھرانہ سے تعلق رکھنے والے ان خانہ بدوش اور پسماندہ لوگوں کی کسی نے تاریخ نہیں لکھی۔ البتہ کچھ انگریز رائٹرز نے لکھا ہے کہ 2250 ق۔ م میں سمیرہ (عراق) کے بادشاہ سارگن نے سندھ پہ حملہ کیا، لوٹ مار کے ساتھ یہاں کے لوگوں کا قتلام کیا گیا۔ کیئے لوگ لڑتے لڑتے مارے گئے، کچھ لوگوں، عورتوں اور بچوں نے اپنی جانیں بچا کے پہاڑوں  اور غاروں میں جا کے پناہ  لی۔

سندھ دنیا کا واحد خطہ تھا جس میں ایریگیشن سسٹم، کپڑا بنانا، اوزار بنانا چمڑے کو رنگنے کے لیے ماہرین تھے اور  اپنا عدالتی نظام بھی تھا۔ جب سارگن نے حملہ کیا تو سندھ کے ایریگیشن سسٹم کے ماہرین کولہی تھے جن کو اغوا کر کے سمیرہ (عراق) لے جاکے دنیا کا دوسرا  ایریگیشن سسٹم بنوایا گیا۔ سسٹم بنوانے کے بعد ان ماہرین کو مروا دیا گیا۔ اس طرح سندھ کے تقریباً ماہرین کا یہ ہی حشر کیا گیا ۔

شاندار ماضی رکھنے والے  یہ خانہ بدوش قبیلے اور ان کی  نئی نسل کے آٹھ  لاکھ افراد اب   بھیک مانگ کر گذارہ کرنے پر مجبور ہیں ۔سندھ  کی  46 لاکھ اقلیتی آبادی کا 17.3 فیصد یہ لوگ  لاشعوری کی زندگی گذار رہے ہیں۔ جس میں ایک قبیلہ گرگلا بھی شامل ہے۔  یہ لوگ شہر شہر تک کسی کے پلاٹ میں پڑاؤ ڈالتے  ہیں ۔ جب پلاٹ کے مالک کو پتا چلتا ہے تو وہ انہیں بھگا دیتا ہے۔ ان کی زندگی کا  پہیہ صدیوں سے ایک ہی  مدار میں گھوم رہا ہے۔

 :رہائش گاہ

یہ  گھاس پھوس  اور چھوٹی چھوٹی لکڑیاں  جوڑ کر اپنی جھوپڑیاں ایک دن میں ہی  بنا لیتے ہیں ۔  ایک جھونپڑی میں سات سے آٹھ افراد رہتے ہیں۔ آمنے سامنے بنی ان جھوپڑیوں میں کوئی خاص پردا بھی نہیں ہوتا۔  ان کے باورچی خانے پلاٹ کے کھلے حصے میں ہوتے ہیں۔ یہ افراد اتنے ناامید ہیں کہ انہوں نے اپنے ذاتی اور پکے مکان کے لئے سوچنا بھی چھوڑ دیا ہے۔انہی جھونپڑیوں کے باسی اقبال ایرانی اور پپو کہتے ہیں کہ ہم جہاں بھی بیٹھتے ہیں وہاں سے بھگا دیا جاتا ہے، ہم لاوارث ہیں اس لیے دربدر ہیں۔ انہوں نے  مزید بتایا کہ اس وقت ہم ایک ارباب کے پلاٹ میں بیٹھے ہوئے ہیں، ان کو پتہ ہے کہ ہم غریب لوگ ہیں جب کہیں گے تو چلے جائیں گے اس لیے تنگ نہیں کرتے۔

:ذریعہ معاش 

خانہ بدوش  قبیلے کے مرد حضرات نہ    کوئی خاص ہنر جانتے ہیں اور مزدوری بھی کم کم  ہی کرتے ہیں۔ کمانے سے لے کر کھانا پکانا، کپڑے دھونا، لکڑیاں چننا، بچوں کی دیکھ بھال کرنا ، تمام کام عورتوں  کے ذمہ ہیں ، اسی لیے  گھر وں میں زیادہ طور حکم بھی خواتین کا  ہی  چلتا ہے۔  نہ کاروبار نہ ہی  ہاتھ میں کوئی  ہنر،  یہ بے یارو مددگار پنچھیوں کی طرح صبح نکلتے ہیں اور شام کو  پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے کچھ نہ کچھ لاتے ہیں۔  “توکل بیڑہ پار” کی طرح صبح ہوتے ہی ان کی عورتیں اور بچے شہر کا رخ کرتے ہیں، قریہ قریہ بھیک مانگتے ہیں،  کوئی سخی دیتا ہے کوئی برا بھلا کہہ کر بھگا دیتا ہے۔ کوئی چور سمجھتے ہیں کوئی عادی بکھاری، مجبور کوئی نہیں سمجھتا۔

پپو کی گھر والی روبینا  بتاتی ہیں کہ  ہم گھر میں آٹھ  افراد ہیں،   آج اتنا ملا ہے کہ پیٹ نہیں بھر سکےگا۔ ہم میں کچھ تو ایسے ہیں جن کو سارا دن کچھ نہیں ملتا پھر ہم آپس میں مل جل کر کھاتے ہیں۔ شریمتی ناجیہ  کہتی ہیں  ہم دو وقت  بھوکے رہنے کے بعد ایک وقت کا  کھانا کھاتے ہیں۔   ان کاکہنا ہے کہ ہم  صبح  بھیک کے لئے نکل جاتے  ہیں ،  پھر دوپہر  تین بجے تک  واپس گھر آجاتے ہیں، جو کچھ ملتا ہے اس پہ گزار اکر کے رات کو سوجاتے ہیں، اس طرح ہم صرف ایک وقت شام کو 5 سے 6 بجے تک کھانا کھا لیتے ہیں، کبھی  ایسا  دن بھی طلوع ہوتا ہے جب ایک وقت کی روٹی بھی نصیب نہیں ہوتی۔

صحرائے تھر سمیت سندھ کے مختلف علاقوں میں جوگی قبیلے سانپ پکڑنے اور انہیں پٹاریوں میں بند کرکے نگر نگر گھوم کر تماشا دکھانے کے حوالے سے مشہور ہیں۔ اس قبیلے کے افراد سانپ کے ڈسے کا علاج کرنے، گیدڑ سنگھی کی فروخت اور بین بجانے کے فن میں مہارت رکھتے ہیں۔

راوڑا قبیلہ بھی خانہ بدوش برادری کا حصہ ہے۔ یہ ہندو مذہب سے تعلق رکھتے ہیں، لیکن ان کےرسم و رواج ہندو ؤں سے مختلف ہوتے ہیں۔ ہندومت میں ایک سے زائد شادیوں کی اجازت نہیں ہے ، پھر بھی مردایک سے زیادہ شادیاں کرتے ہیں۔ مرد سڑکوں پر پتھر کوٹتے جب کہ ان کی عورتیں اور بچے بھیک مانگتے نظر آتے ہیں۔

ایک قبیلہ’’ کبوترا ‘‘بھی ہے، جو شہر کے اطراف میں جھونپڑیاں ڈال کر رہتے ہیں۔ ان کے مرد بھی جھگیوں میں آرام کرتے دیکھے جاتے ہیں، جب کہ ان کی خواتین بھیک مانگتی ہیں۔ قبیلے کے افراد مُردہ جانوروں، بالخصوص پرندوں، مرغیوں کے گوشت کو خشک کرکے سارا سال استعمال کرتے ہیں۔ مرد اور عورتیں بھیک مانگنے کے ساتھ ساتھ مٹی اور لکڑی کے کھلونے بنا کر فروخت کرتے ہیں۔

 :عبادت

گرگلے افراد  سناتن دھرم کے ماننے والے ہیں ۔ “ستیاں” کو اپنے کل کے دیوتا کےطور مانتے ہیں، ہر ماہ چاند نظر آنے پر یہ اگربتی جلاتے اور صدقہ دیتے ہیں، غربت کی وجہ سے عبادت بھی سادے طریقے سے ہوتی ہے۔ ان کے ساتھ یہ شو شنکر، بھولے ناتھ اور ویر ہنومان کی بھی عبادت کرتے ہیں۔ پاک کتاب گیتا صاحب کو مانتے ہیں، لیکن کوئی تعلیم نہ ہونے کہ وجہ سے اس کا پاٹ نہیں کر پاتے۔  جب کوئی وفات پا جاتا ہے تو ان کا گرو آ کر گیتا صاحب کا پاٹ کرتا ہے۔

خیرپور کے صحرائی علاقے نارا سے تعلق رکھنے والا سامی قبیلہ اپنے عقیدے میں مسلمانوں کے قریب ہے۔ یہ زیارت کے لیےایران جاتے ہیں ۔ محرم میں عزاداری اور ماتم ، مجلس ان کا معمول ہے ۔ ان کے نام بھی مسلمانوں سے ملتے جلتے ہوتےہیں۔

خانہ بدوشوں میں ایک برادری شکاری قبیلے کے نام سے جانی جاتی ہے۔ یہ ہندو ہوتےہیں لیکن ان کے بعض رسم و رواج مسلمانوں کی طرح ہیں۔اس قبیلے کے افراد نہ تو مندر جاتے ہیں اور نہ دیوی دیوتا کا بت بناکر اس کی پوجا کرتے ہیں۔ ان کی شادی کی رسومات بھی مسلمانوں کی طرح انجام دی جاتی ہیں اور مرنے کے بعد انہیں بھی مسلمانوں کے انداز میں نہ صرف دفنایا جاتا ہے بلکہ دعائیہ تقریب کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔ اس قبیلے کے افراد خود کو ’’بھیل‘‘کہتے ہیں۔

:شادی بیاہ

گرگلے قریبی  رشتوں میں شادیاں نہیں کرتے، جیسے  ماموں، چچا، پھی، بھائی یا بہن کی اولادوں  میں۔ ان کے یہاں  دور کے رشتوں میں لڑکی دیتے ہیں اور لیتے ہیں۔ شادی کے لیے چھوٹی بڑی عمر کا کوئی تقاضا بھی نہیں ہے، نہ ہی یہ لوگ ہندو میرج ایکٹ سے واقف ہیں۔ سگائی، چونئری کے پھیروں کےسا تھ سندھ کی تہذیبی رسومات پر کاربند ہیں ۔

:موت کی رسومات

گرگلے دوسرے ہندؤں کے برعکس ، مردے کو کفن دے کر کسی قبرستان میں دفنا دیتے ہیں۔ بارہ  دن گذر نے کے بعد رشتہ دراوں کے ساتھ ساری رات کو بھجن گاتے ہیں اور صبح کریا کرم (پگڑیوں کی رسم) کرتے ہیں۔

:بنیادی ضروریات

عارضی پلاٹوں میں زندگی گزارنے  کی وجہ سے ان خانہ بدوشوں  کو  پانی اور بجلی کی سہولت میسر نہیں ہوتی ۔ یہ  روزانہ پانی کا کین بھرکر گزارا کرتے ہیں۔   سرکاری پانی کے ٹینکس سے ان کو پانی بھرنے نہیں دیا جاتا۔ ان لوگوں نے شکایت کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی جھوپڑیوں کے نزد ایک سرکاری ٹینک موجود ہے، جہاں سے پہلے  پانی مل جاتا تھا  لیکن اب مٹھی شہر کے کرتا دھرتا نے بند کیا ہوا ہے ۔

تعلیم کی  مد میں ان لوگوں کا کہنا ہے چھ ماہ ہوئے ہیں انہوں  نے بچوں کو اسکول بھیجنا شروع کیا ہے لیکن ان کی یونیفارم، کتاب، کاپیاں اور پینسلیں کہاں سے لائیں۔ ان مسائل کے باوجود خانہ بدوش  اپنے  بچوں کو تعلیم دلوانا چاہتے ہیں۔

صحت کے حوالے سے فالج کے مریض انور ایرانی نے بتایا کہ وہ گھر  انہ آٹھ افراد پہ مشتمل ہے، ان کی  بیوی بھیک مانگتی ہے جس سے پیٹ کی آگ بجھتی ہے۔ انور کہتے ہیں کہ  ہم کھائیں یا علاج کروائیں۔  سرکاری اسپتالوں سے دوائیں نہیں ملتیں ، نہ ہی سفارش ہے کہ  بہتر علاج ہوسکے، ہمارے لوگوں میں اگر کوئی بیمار ہوتا ہے تو وہ مر کے جان چھڑواتا ہے ۔

:مسائل  اور ریاستی ذمہ داری

خانہ بدوش قبیلوں کی زندگی دکھ اور درد سے بھری دنیا میں چھپی ہوئی ہے، جس کو وقت کی  تیز گردش  میں کوئی نہیں دیکھتا۔   گھر نہیں، پانی نہیں، بجلی نہیں، تعلیم نہیں، کاروبار نہیں، ہنر نہیں، علاج نہیں اور عزت سے تو ان کو کوئی بھیک بھی نہیں دیتا۔ ایسے حالات میر،  پیر،  وڈیرے اور مکھیہ ووٹ لینے کے لیے تو پہنچ جاتے ہیں، پھر لوٹ کے نہیں آتے۔

ضلعی انتظامیہ اور غیر سرکاری تنظیمیں  بھی  ان لوگوں کے نام پہ  چندہ  کٹھا کرتی ہیں لیکن ان غریبوں کے نام پر  اکھٹے کیے  ہوئے فنڈ کہاں استعمال ہوتے ہیں، کچھ پتا نہیں۔  خانہ بدوش لوگوں کا حال بے حس کتابوں میں بند ہوچکا ہے۔

:خانہ بدوشوں کا مطالبہ

اس   اقلیتی برادری  کی امید بےحسی کے اندھیروں میں کھو چکی ہے ، اس لیے  نہ تو  یہ قانون کی مدد لیتے ہیں  اور نہ ہی وڈیروں یا کانسلرزکے پاس جاتے ہیں ۔ انہوں نے مطالبہ  رکھا ہے کہ وہ ذلت کی زندگی سے تھک چکے ہیں۔انہیں   گھر، پانی، بجلی، روزگار، بچوں کی تعلیم، اور مفت علاج کی سہولیات دی جائیں جو ہر پاکستانی کا حق ہے ۔

1 Comment

  1. Ashok Ramani says:

    Ustad 2 good

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *