نہیں ہے ناامید اقبالؔ اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
یہ کہانی ہےپاکستان کے پسماندہ گاؤں کی ایسی گھریلو خاتون کی جس کے پاس نہ تعلیم کا خزانہ ہےاور نہ ہی وسائل، لیکن کئی ممالک میں ان کے فن کے قدردان موجود ہیں۔ضلع ٹنڈوالہ یار کے گاؤں سنجر چانگ کی رہائشی 40 سالہ ڈانی کولہی کی شہرت پاکستان سے نکل کر کئی دوسرے ممالک میں بھی جا پہنچی ہے۔ ان کی اس شہرت کا سبب ان کا مٹی کے چولہے بنانے کا فن ہے۔ وہ ایسے چولہے بناتی ہیں جو نہ صرف دیکھنے میں خوب صورت ہیں بلکہ وہ وقت بھی بچاتے ہیں اور ماحول دوست بھی ہیں۔
ان کے بنائے ہوئے چولہے مٹی سےبنائے ہوئے عام چولہوں سے مختلف بھی ہیں اور سائزمیں بھی بڑے ہیں۔اس پر ایک ہی وقت میں تین چیزیں پکائی جاسکتی ہیں جس سے وقت کی بھی بچت ہوتی ہے اور دھواں بھی کم نکلتا ہے ۔ تکلیف دہ دھواں عورتوں کی آنکھوں میں جانے کے بجائے اس میں لگی چمنی سے باہر نکل جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کی آگ سے جلنے کا خطرہ بھی نہیں ہوتا۔
ڈانی کہتی ہیں کہ “میری کوشش ہے کی ایسے ہزاروں چولہے بنا کر زیادہ سے زیادہ عورتوں کو فراہم کروں تاکہ گاؤں کی خواتین کی کھانا پکانے میں آنے والی مشکلات دور ہو سکیں”۔
ڈانی کولہی ضلع تھرپارکر کے علاقے ننگر میں پلی بڑھی ہیں لیکن بیس سال قبل ان کا خاندان سنجر چانگ منتقل ہوگیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے چولہے بنانے کا ہنر کسی سے نہیں سیکھا بلکہ یہ ان کی اپنی سوچ کا نتیجہ ہے۔ جب انہوں نے یہ کام شروع کیا تو ڈانی کے شوہر نے انکی ہمت افزائی کی اور آج بھی وہ ڈانی کے کام میں ہاتھ بٹاتے ہیں۔
پہلے پہل ڈانی نے ضلع ٹھٹہ کے قصبے مکلی میں ایک سرکاری مرکز میں اپنا چولہا بنایا جسے وہاں موجود انگلینڈ کے ایک وفد نے دیکھا۔ اس وفد نے مئی 2022 میں انہیں لندن بلایا، جہاں نہ صرف ان کے بنائے ہوئے چولہوں کی نمائش منعقد کی گئی بلکہ انہوں نے وہاں لوگوں کو چولہے بنانے کی تربیت بھی دی۔ ڈانی کا کہنا ہے کہ اگرچہ “میں پڑھی لکھی نہیں ہوں لیکن میرے پاس یہ ہنر موجود ہےجس کی وجہ سے مجھے دوحا، لندن اور دبئی دیکھنے کا موقع ملا ہے”۔ اب ڈانی کولہی کا ٹنڈو الہیار کے قریبی قصبوں جیسے جھڈو، نیوکوٹاور سامارومیں خواتین کو چولہے بنانے کی تربیت دینے کا ارادہ ہے جبکہ امریکی اور چینی وفد بھی ان سے اسلام آباد یہ تربیت حاصل کریں گے۔
ڈانی پانچ بچوں کی ماں ہےان کا بڑا بیٹا شادی شدہ ہے جبکہ دو بیٹیاں اوردو بیٹے زیر تعلیم ہیں۔ ان کے شوہر کھیموں کولہی اپنی بیوی کے کام سے بہت خوش ہیں اور کہتے ہیں کہ “یہ میرے لیے فخر کی بات ہے کہ آج میری بیوی کو اس کے ہنر کی وجہ سے دنیا کے کئی ممالک میں جانا جاتا ہے۔ میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ڈانی کے بنائے ہوئے چولہے اتنے مشہور ہو جائیں گے اور وہ اس سے کمائی بھی کر سکے گی”۔
ڈانی سے مختلف غیر ملکی وفود اور غیر سرکاری تنظیمیں چولہے بنواتی ہیں جن کے بدلے انہیں دو سو روپے فی چولہا دیا جاتا ہے۔ ڈانی کہتی ہیں کہ انہیں اپنا کام بڑھانے کے لیے مزید وسائل کی ضرورت ہےجن کے حصول کے لیے وہ مختلف سماجی تنظیموں سے رابطے میں ہے۔ وہ پرامید ہیں کہ ان کا ہنر محض ان تک محدود نہیں رہے گابلکہ آنے والے وقت میں کئی نوجوان لڑکیاں چولہے بنانے میں ماہر ہو جائیں گی اور گاؤں کی خواتین کی زندگی میں آسانی پیدا کر سکیں گی۔