انسانوں کے بارے میں مشہور کہاوت ہے کہ مر کر خاک ہو جانا ہے ، لیکن پاکستان میں لاکھوں مزدور جو بھٹوں پر کام کرتے ہیں وہ جیتے جی خاک ہوگئے ہیں، ان کا اوڑھنا بچھونا، کام کرنا سب خاک ہے۔ بھٹے پر کام کرنے والا خاندان مل کر پورے دن میں 1200 سے 1500 اینٹیں بنا پاتا ہے اور اس کے لیے انہیں 1200 سے 1500 روپے یعنی ایک روپیہ فی اینٹ ملتے ہیں۔ اس میں سے بھی 50 فیصد رقم قرضے میں کٹ جاتی ہے یعنی پورے خاندان کی یومیہ آمدن 500 سے 600 روپے تک ہی ہوتی ہے۔
بھٹہ مزدور نسل در نسل مقروض کیوں؟
اسلام آباد کے نواحی علاقے ترنول سے کچھ میل دور فتح جنگ روڈ پر قائم ایک بھٹےپر کام کرنے والے مزدوروں نے بتایا کہ ان کا قرضہ بیس سال میں بھی ختم نہیں ہوا۔ غلام شبیر نے 20 سال قبل 2 لاکھ روپے قرضہ لیا تھا ،جس میں سے ڈیڑھ لاکھ ہی واپس کرسکا، اب اسے بیٹی کی شادی کے لیے قرضہ لینا ہے۔ جب اس سے پوچھا کہ 20 سال میں قرضہ واپس کیوں نہیں کرسکے تو اس کا جواب تھا کہ جو کمایا سب بیماری کے علاج میں خرچ کرنا پڑا۔ پاکستان میں اینٹوں کے بھٹےشہروں سے دور بنائے جاتے ہیں، اس لیے صحت کی سہولیات ان سے کوسوں دور ہیں۔ نامساعد حالات کی وجہ سے علاج معالجہ بھی نہیں کراسکتے، جب تک بیماری بگڑ کر موذی نہ بن جائے تب تک علاج کے لیے گھریلو ٹوٹکے آزماتے رہتے ہیں، پھر پتہ چلتا ہے کہ بیماری موت کا سبب بن گئی تو پھر کفن دفن یا میت اپنے آبائی علاقے میں پہنچانے کے لیےبھی قرضہ لیتے ہیں۔
یہ کہانی اینٹوں کے بھٹے پر کام کرنے والے ہر دوسرے خاندان کی ہے۔ فیاض نے بتایاکہ 20 سال میں 2 لاکھ روپے کا قرض اس لیے ختم نہیں ہوا کیونکہ اس کے والد، بھٹہ پر مزدوری کے دوران پھیپھڑوں میں مٹی جمنے، بھٹے کی چمنی سے نکلنے والے آلودہ دھوئیں اور غیر معیاری پانی پینے کی وجہ سے دمہ کے مریض بن گئے تھے۔ یہاں پر مزدوری بہت کم ملتی تھی اور قرضہ اتار نا ہوتا تھا اس لیے مرض پلتا رہا ، بگڑتا رہا، وہ مزدوری کی رقم کو علاج معالجے پر خرچ نہیں کرسکتے تھے۔ فیاض کا کہنا ہےکہ بھٹے پر مزوری کے دوران بیمار ہونے والے، جب تک موت کے قریب نہیں پہنچتے علاج نہیں کراتے ، جب موت کے قریب پہنچتے ہیں تو قرضہ لے کر علاج کراتے ہیں، اسی لیے ہر مزدور علاج معالجے، یا کسی اپنے پیارے کے فوت ہوجانے کی صورت میں کفن دفن کی وجہ سے مقروض در مقروض رہتا ہے۔
بھٹہ مزدور مرد اور خواتین اور ان کےبچے بیمار کیوں رہتے ہیں؟
بھٹے پر کام کرنے والی خواتین کے لیے طبی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یہ خواتین زچگی کے دوران بھی اینٹیں بناتی ہیں ۔ اس لیے ہر خاتون کے ایک سے دو بچے پیدائش کے وقت مرجاتے ہیں اور وہ اسے اپنا نصیب سمجھ کر پھر کام پر لگ جاتی ہیں۔ بھٹے پر کام کرنے والی ایک خاتون کے بچے 18 اور 16 سال کے ہوگئے ہیں اور اس کے ساتھ بھٹہ پر کام کراتے ہیں، اسے یہ جان کر حیران ہوئی کہ حاملہ ماں کا ہر مہینے چیک اپ ہوتا ہے، اس نے بتایا کہ اس نے کبھی زچگی کے دوران کسی ڈاکٹر کو نہیں دکھایا۔ بزرگ ہوں یا پھر بچے،بھٹے پر کام کرنے والے خاندانوں کوفلٹر پلانٹ میسر نہیں، یہ غیر معیاری پانی پیتے ہیں اور بار بار بیمار پڑتے ہیں۔
بھٹہ مزدوروں کی آیندہ نسل بھی غذائی قلت کاشکار
عالمی بینک نے اکتوبر 2023 میں جاری کی گئی اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں 40 فیصد بچے غذائی عدم تحفظ سے دوچار ہیں جبکہ سندھ میں بچوں کو پلائے جانے والے 50 فیصد پانی میں بیکٹریاز شامل ہوتے ہیں۔ عالمی بینک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 5 سال سے کم عمر بیشتربچوں کے لیے صاف پانی دستیاب نہیں، پاکستان میں 5 سال سے کم عمر بیشتر بچوں کے لیے بیت الخلا کی سہولت نہیں، پاکستان میں 5 سے کم عمر بیشتر بچے کے ساتھ مویشی بھی پلتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پیدائش کے بعد پہلے 1000 دن بچے کی ذہنی صحت کے لیے انتہائی اہم ہے، پیدائش کے بعد پہلے 1000 دن میں بچے کا 80 فیصد ذہن بنتا ہے، پاکستان میں 5 سال سے کم بچوں کی اموات میں 45 فیصد وجہ خوراک کی کمی ہے ۔
رپورٹ کے مطابق خوراک کی کمی کا شکار بچے مٹی کھانے کی عادت کا شکار ہوجاتے ہیں، خوراک کی کمی کا شکار بچے ایسی مٹی بھی کھا جاتے ہیں جس میں مویشیوں کا فضلا بھی شامل ہوتا ہے۔ اینٹوں کے بھٹے پر اپنے والدین کا ہاتھ بٹاتے ہوئے یہ بچے بھی غذائی عدم تحفظ کا شکار بھی ہیں کیونکہ ان کے پاس کھانے کے لیے ضرورت کے مطابق خوراک نہیں ہوتی، پینے کے لیے صاف پانی نہیں ہے۔
اقوام متحدہ کے ایس ڈی جیز کے اہداف کے حصول میں ایس ڈی پی آئی کا فریم ورک اور پاکستان میں منتخب نئی وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے توقعات
پاکستان اقوام متحدہ کے ایس ڈی جیز اہداف کے فریم ورک پرعمل درآمد کرنے کا پابند ہے،جو پاکستان میں بسنے والے تمام شہریوں کے بنیادی حقوق کی فراہمی سے متعلق ہیں۔ ان میں ایس ڈی جی 8، ایس ڈی جی 12 اور ایس ڈی جی 13 وہ اہداف ہیں جن میں مزدوروں کے لیے کام کرنے کا ماحول بہتر ہونا ضروری قرار پایا ہے۔ یعنی انہیں پینے کا صاف پانی ، بیت الخلاء کی سہولت دینا، ماحولیاتی آلودگی سے بچانا، انہیں صحت اور ان کے بچوں کے لیے تعلیم کی سہولت میسر ہو۔ مزدوروں کے لیے اس فریم ورک میں لیبر قوانین پر عمل درآمد، ان کی رجسٹریشن، ان کے لیے ای او بی آئی میں رجسٹریشن وغیرہ بھی شامل ہیں۔
موجودہ انتخابات سے قبل مسلم لیگ نون ، پی ٹی آئی پاکستان پیپلز پارٹی تینوں جماعتوں نے اپنے منشور میں آئی ایل او کے لیبر قوانین پر عمل درآمد کے فریم ورک پر عمل درآمد کا وعدہ کیا ہے۔ جس میں ان کے لیے مزدور کارڈ اور صحت کارڈ بنا کر دیئے جائیں گے۔ اس فریم ورک میں انہیں ای او بی آئی میں رجسٹرڈ کیا جائے گا، ان کے لیے پنشن کی کوئی اسکیم لائی جائے، ایس ڈی جیز کے متعلقہ اہداف حاصل کیے جائیں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ تینوں جماعتوں میں کون سب سے پہلے عمل درآمد کرتا ہے۔