کسی نئے شہر کا ظہور، قدیم دور میں مقامی آبادی کی ذہنی، سماجی اور معاشی ترقی کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ طریقہ زراعت میں انقلابی تبدیلیوں کے سبب فصل کا حجم غیر معمولی حد تک بڑھ جانا، مرحلہ وار تجارت کا سبب بنا اور یوں بہت سے لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب رہنے کی ضرورت پڑگئی، دیہاتوں کی جگہ بستیاں بسائی گئیں، اور یہی بستیاں دھیرے دھیرے قصبوں اور شہروں میں تبدیل ہوتی رہیں۔ یہی دور ٹاون پلاننگ کے ابتدائی تصورات کا دور ہے۔
عام مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ دنیا کا ہر شہر پرسکون اور خوشحال نہیں ہوسکتا۔ قدیم ادوار سے دور جدید تک، اچھے شہروں کے ساتھ ساتھ برے شہر بھی بستے رہے ہیں، یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
موہن جودڑو اور ہڑپّہ قدیم ترین شہری آبادیوں میں شمار ہوتے ہیں، جب کہ شاید منصوبہ بندی اور جدیدیت میں، ادوار کے تناظر میں، یہ شہر سرفہرست ہیں۔ البتہ اس تحریر میں سارا زور شہروں کے قیام، تغیر، تسلسل اور کسی خاص خطے میں ان کی تعداد سے ہے۔
ہڑپّہ / انڈس ویلی تہذیبوں کے بعد کے قدیم ادوار میں اچھے شہر بحرہ روم کے آس پاس جنم لینے والی تہذیبوں میں ہی ظہور ہذیر ہوئے۔ اِن ترقی یافتہ تہذ یبوں کا تعلق قدیم ادوار میں، موجودہ جنوب مغربی یورپ، شمال مشرقی افریقہ، ترکیہ اور جزیرہ نمائے عرب کے شمال مغربی علاقوں سے تھا، اور ایرانی تہذیب بھی سر اُٹھا رہی تھی۔
قدیم میسوپوٹیمیا میں متعدد شہر تعمیر کئے گئے۔ یہ شہر پلاننگ کے سبب ارد گرد کی دنیا میں جنت سے تعبیر کئے جاتے تھے۔ ان کی بناوٹ، کشادگی، خوشحالی اور علم و تدریس سے متعلق روایات کے سبب یہاں سُمیرئین اور دیگر مثالی ثقافتوں نے جنم لیا۔ تاریخ و فلسفے سے دلچسپی رکھنے والے طالب علم، جزیرہ نمائے عرب کے شمال مغربی علاقوں اور بحرہ روم کے جنوب مشرق میں پروان چڑھنے والی ان ثقافتوں کے تغیر اور ان کی ترتیب سے خاصی واقفیت رکھتے ہوں گے۔
ماہرینِ آثار قدیمہ ان شہروں میں بابل اور نینوا، اُر، اُروک اور جیریکو کے آثار دریافت کرچکے ہیں، لہذا ان شہروں کے روایتی افسانوی پہلووں پر اب حقیقی پہلو خاصا حاوی ہوچکا ہے۔ پاکستانی اسکالر سید سبط حسن اس خطے کی تہذیب پر خاصی گفتگو کرچکے ہیں، ان کی تصنیف ماضی کے مزار پڑھ کر ان کی کار آمد تحقیق سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ ان قدیم شہروں میں دمشق اور یروشلم مسلسل آباد رہے، اور آج بھی دنیا کے مقبول ترین مقامات میں شامل ہیں۔
بحرہ روم کے اُس پار، یعنی شمال مغرب میں جنم لینے والی قدیم یونان کی آزاد شہری ریاستیں، جدید شہریت کی بنیاد ہیں۔یہی شہر سقراط، افلاطون اور ارسطو سمیت تاریخ کے بلند پایہ فلسفیوں کے ظہور کے ساتھ ساتھ، فن تعمیر، فنون لطیفہ اور سائنس جیسے شعبوں کو رسمی طور پر تدریسی عمل میں شامل کئے جانے کا سبب ہیں۔ ایتھنز کے زیر نگرانی یہ قدیم یونانی ریاستیں موجودہ ترکیہ (ترکی) کے جنوب مغربی علاقوں تک پھیلی ہوئی تھیں۔ یونان کے جانے مانے ماہر تعمیر ہیپو ڈیمس (Hippodamus) کو ترک خطے میں ملیطس نامی ایک شہر کی شاندار پلاننگ کی وجہ سے آج بھی مانا جاتا ہے۔
شہریت کی تاریخ پر تحقیق کرنے والوں کا خیال ہے کہ ملیطس کی بناوٹ آنے والے ادوار میں جدید تر یونانی اور رومن شہروں کی بنیاد بنی۔ ان میں قدیم بحیرہ روم کی ثقافت کے زیر سایہ تعمیر ہونے والا شہر الیگزینڈریا منصوبہ بندی کی بڑی مثال مانا جاتا ہے۔ رومیوں نے مزید شہر تعمیر کئے، اور مسلسل فتوحات کے سبب دیگر خطوں کے شہروں کے خدوخال بہتر کئے۔ ان شہروں میں بھی یونان کی آزاد شہری ریاستوں کی طرح تبادلہ خیال اور فکری میل جول کے لئے فورم تعمیر کئے جاتے تھے۔ اسی طرح موجودہ ترک علاقوں میں تیار کیا گیا رومی شہر قسطنطنیہ ایک دور میں یورپ کا آبادی و اقتصادیات کے حوالے سے سب سے بڑا اور اہم ترین شہر تھا۔
اس معاملے میں ایشیائی اقوام کی پرفارمنس بھی اچھی تھی۔ موجودہ جاپان، کوریا، چین اور ملحقہ ثقافتوں میں آج بھی ایسی ان گنت رہائش گا ہیں موجود ہیں جو سینکڑوں برس پہلے انتہائی شہری اصولوں اور ضروریات کے تحت تعمیر کی گئی تھیں۔ ان خطوں میں بھی ترقی یافتہ شہروں کے آثار موجود ہیں۔ وہاں آج بھی بہت سے شہر سینکڑوں برس سے آباد ہیں، دیوار چین کا طرز تعمیر اور طوالت قدیم ادوار میں بھی وہاں شہری طرز زندگی کا پتہ دیتی ہیں۔
قدیم ہندوستان میں بیہار کا شہر پٹنہ اور موجودہ پاکستان کا شہر پشاور مسلسل آباد رہنے والے دنیا کے چند شہروں میں شامل ہیں۔ یہ اپنے دور کے قدیم شہر کہلاتے ہیں۔ پٹنہ مسلسل آباد رہنے والے ہندوستانی (و پاکستانی) شہروں میں قدیم ترین ہے۔ اس کی بنیاد موریہ دور سے بھی پہلے رکھی گئی تھی۔
چندر گپتہ موریہ کا تعلق موجودہ پٹنہ، یعنی قدیم پاٹلی پوترہ سے تھا۔ خطے میں موریہ سلطنت کے قیام کے بعد ہندوستان نے بہت ترقی کی، غیر ترقی یافتہ خطوں میں نئے شہر آباد کئے گئے، انہیں ماہرین آثار قدیمہ موریائی شہر (Mauryan Cities) کہہ کر یاد کرتے ہیں۔ ان میں موجودہ قندھار بھی شامل ہے۔
جنوبی افغانستان میں واقع قندھار ایک موریائی شہر (Mauryan City) ہے، تعمیر کے وقت اس کانام گندھار رکھا گیا تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ موجودہ صوبہ سرحد اور اس سے ملحقہ علاقوں کو، چندر گپتہ موریا کے پوتے اسوکا کے زیر اثر گندھارا کا نام دیا گیا۔ یہ نام صوبہ سرحد میں جگہ جگہ ملنے والے اسوکا اور گوتم بدھ کے مجسموں اور بدھ مت سے متعلق دیگر اشیا کی بر آمدگی سے جُڑا ہے۔
ایک تاریخی باب یہ بھی کہتا ہے کہ اس دور سے چند صدیاں قبل تبت سے آکر افغان علاقوں میں بسنے والے کمبھوجا قوم کے لوگوں نے بنگال کے لوگوں سے مثالی تجارتی تعلقات قائم کرلئے، اور آہستہ آہستہ کمبھوجا قوم تقریباً مکمل طور پر، (موجودہ) افغانستان سے بنگال ہجرت کرگئی۔ زراعت اور اس سے جڑے کئی شعبوں کے سبب عمل پزیر مرحلہ وار تجارت، اچھے شہروں یا ترقی یافتہ بستیوں کے بغیر ممکن نہیں۔لہذا کہا جاسکتا ہے کہ قدیم بنگال میں ترقی یافتہ شہری آبادیاں موجود تھیں، جن کی کشش کے سبب اتنی بڑی ہجرت ممکن ہوئی۔ البتہ اس خاص تاریخی عمل سے متعلق مزید ٹھوس شواہد درکار ہیں۔ قدیم ادوار میں موریہ اور گپتہ ادوار کی ترقی کے آثار، دریافت ہونے والے تعمیری شاہ کاروں کے سبب انتہائی واضح ہیں۔
ہندوستان میں جدید شہریت کی داغ بیل غالبا موجودہ شمال مغربی صوبے گجرات میں ڈالی گئی۔ کہتے ہیں کہ یہاں کی مقامی کاروباری کمیونیٹیز کے تین سو برس قبل روم اور لسبن سے تجارتی روابط کے آثار موجود ہیں۔ گجراتی، میمن، کاٹھیاواڑ، پارسی اور یہاں کی دیگر برادریاں ہندوستان کی خوش حال برادریوں میں شامل ہیں۔ ان کے تحت احمد آباد اور سورت جیسے منظم شہر وجود میں آئے۔ انہی کمینیٹیز کے ساتھ مراٹھی براہمن برادری نے ممبئی جیسے شہر کی بنیاد رکھی، جو اب تجارت کے ساتھ ساتھ دنیا کی دوسری بڑی فلمی صنعت کا مرکز ہے۔
اچھے شہر آباد کرنے میں جنوبی ہند کے مقامی لوگ، ذاتی رائے ہے کہ، گجراتیوں اور مہاراشٹریوں کے بعد تیسرے نمبر پر ہیں۔ انہوں نے تری وندرم، بنگالورو، اور چنائے جیسی پرامن اور خوشحال شہری آبادیوں کی بنیاد رکھی۔
ہندوستانی شہروں کی آبادکاری میں ہنرمندی کے معاملے میں شاید بنگالیوں کا نمبر چوتھا ہے۔ موجودہ مغربی بنگال اور بنگلہ دیش کے تمام بڑے شہر اپنی ابتدا سے اچھے اور خوش حال شہروں میں شمار ہوتے رہیں ہیں۔ ان شہروں کا نظم و نسق پاک و ہند کے بہت سے شہروں سے ہمیشہ بہتر رہا ہے۔
شمالی ہندوستانیوں کا خاصہ ہے کہ انہوں نے شہروں کی تعمیر کے دوران بھی، کبھی اپنی خاندانی، ادبی، مذہبی، فرقہ وارانہ اور عالی شان دیہاتی روایات کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ دہلی اور لکھنوو جیسے خوبصورت اور اچھے شہر ضرور بسالئے، لیکن بیچ گلی میں دیگ پکانے اور ہر چھوٹی بڑی بات پر ہلہ گلہ (اور بلوا) کرنے کی حسین روایت قائم و دائم رکھی۔ کئی چھوٹے پر امن شہر بھی بسائے، ان میں امروہہ، پیلی بھیت، رامپور، اور میرٹھ، بریلی، علی گڑھ وغیرہ شامل ہیں۔
اچھے شہر بسانے میں شمالی ہند کے لوگ ہندوستان میں شاید پانچویں نمبر پر ہیں۔ ان شمالی ہند کے لوگوں میں یہاں جان بوجھ کر پنجابیوں کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔ ویسے شہر بسانے مین چھٹے نمبر پر، میرے مطابق، شاید پنجابی ہی ہوں! انہوں نے لاہور، لائل پور اور راولپنڈی جیسے اچھے تجارتی شہر بسائے۔ بہت سے چھوٹے شہر بھی اہم ہیں۔ لیکن ان شہروں میں غریب کی زندگی آج کی طرح پہلے بھی کافی مشکل تھی۔
تقسیم سے قبل، کراچی اور کوئٹہ سمیت، ہندوستان کے بہت سے شہروں کی تعمیر میں یا ان کے خدوخال کی تبدیلی میں انگریز راج کا بہت بڑا کردار رہا ہے۔ اگرچہ فی الحال یہ عنصر اس تحریر میں شامل نہیں ہے، لیکن انگریزوں نے جہاں چند شہر بسائے اور چند کو ترقی سے ہمکنار کیا، وہیں اپنے خاص مقاصد کے لئے وہ نقصانات کا سبب بھی بنے ۔
یہ تحریر بنیادی طور پر ذاتی رائے پر مشتمل ہے۔ اور جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے، چند معاملات میں تحقیق درکار ہے، خاص طور پر ہندوستانی اقوام کی شہریت اور شہر بسانے میں ہنر مندی کے حوالے سے رینکنگ یقینا بہت سوں کے لئے قابل اعتراض معاملہ ہوسکتا ہے۔ لیکن مقصد صرف جستجو اور ذہن میں قدرتی طور پر جنم لینے والے خیالات کا اظہار تھا، اور کچھ نہیں۔