اس وقت پاکستان میں کل 20 ھزار سے زائد صحافی کام کر رہے ہیں ۔ جس میں سے 5 فیصد خواتین ہیں یعنی 1000۔ ان 20 ھزار میں سے 200 صحافیوں کا تعلق منارٹی گروپس یا اقلیتوں سے ہے ۔ جبکہ میڈیا ھاوسز الیکٹرونک میڈیا ، پرنٹ میڈیا اور ڈجیٹل میڈیا میں کام کرنے والی ورک فورس کی تعداد 2 لاکھ تک ہے ۔
سیفٹی اور سیکیورٹی
2000 سے لیکر 2017 تک پاکستان میں 120 صحافی ان دی لائن آف ڈیوٹی مارے جا چکے ہیں ہیں ۔ جبکہ 20 ھزار میں 2000 صحافیوں پر کسی نہ کسی طرح حملہ کیا گیا ، زخمی کیا گیا ، اغوا کیا گیا اور وہ خطرات میں رہے ۔
ان 120 قتل ہونے والے صحافیوں میں سے 16 ایسے صحافی ہیں جو وار زون میں کام کر رہے تھے ۔ اور المیہ یہ ہے کہ ان صحافیوں کو ان کے ادارے بغیر تنخواہ کے کام کر وا رہے تھے ۔
ایک حالیہ سروے کے مطابق پاکستانی ٹی وی کے63 فیصد ناظرین اب نیوز چینل چھوڑ کر انٹر ٹینمنٹ چینلز ، اسپورٹس اور ترکش سوپ دیکھ رہے ہیں ۔ صرف 37 فیصد ناظرین کی دلچسپی نیو ز چینلز میں برقرار ہے ۔ ان 37 فیصد میں سے بھی 16 فیصد لوگ جیو نیوز دیکھتے ہیں جبکہ بقیہ 21 فیصد باقی سارے چینلز کا طواف کرتے ہیں ۔ پاکستانی ناظرین کی نیوز چینلز میں دن بہ دن کم ہوتی دلچسپی کی سب سے بڑی وجہ خراب ہوتی نیوز اسکرین ہے ۔ جو دیکھنے والوں میں ایک ھیجانی کیفیت پیدا کر دیتی ہے ۔ نیو ز رپورٹ کرنے کے بجائے نیوز تخلیق کرنے کے فروغ پاتے نئے رجحان نے پیشہ صحافت اور پیشہ ورصحافیوں کیلئے نت نئے چیلیجنز کو جنم دیا ہے ۔
بارشوں کے نتیجے میں آنے والے سیلاب کو روکنے اورکنٹرول کرنے کیلئے دریاوں پہ بند بنائے جاتے ہیں ، بیراج اور ڈیم تعمیر کرکے سیلابی پانی کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ کیونکہ اگر سیلابی پانی کو کنٹرول نہ کیا جائے تو وہ بستیوں کو تہہ و بالا کردیتا ہے صفحہ ہستی سے مٹا دیتا ہے ۔ اور سیلابی پانی پی کر قوم بیمار ہوجاتی ہے بعینہ اسی طرح اس وقت ملک میں انفارمیشن اور معلومات کا ایک سیلاب ہے جو پرنٹ میڈیا ، الیکٹرونک میڈیا اور سوشل میڈیا کے زریعے ہر لمحہ تیز سے تیز تر ہو تا جا رہا ہے ۔ حتیٰ کہ ایک ایک منٹ میں ہمارے واٹس اپ پہ اتنی معلومات موصول ہو رہی ہوتی ہیں کہ ہم اسے دیکھنے اور پڑھنے سے قا صر ہو جاتے ہیں ۔
انفارمیشن کے اس سیلاب کے آگے بند باندھنے کیلئے نیوز رومز میں ۔ ڈیسک کا کام ، کوالٹی کنٹرول پرو ڈیوسرز ، وڈیو ایڈیٹنگ ڈیسک دراصل وہ بیراج اور ڈیم اور بند ہیں جن کے زریعے سے انفارمیشن کے اس سیلاب کو کنٹرول کیا جاتا ہے ، خبر کو ٹریٹ کیا جاتا ہے اور ایڈیٹنگ اور چیک کےمراحل سے گذارا جاتا ہے ۔ لیکن میڈیا ھاوسز میں کمزور اور دن بہ دن معدوم ہوتا ایڈیٹوریل انسٹیٹیوتشن اس سیلاب کو کنٹرول کرنے اس کے آگے بند باندھنے سے قاصر ہے ۔ جسکے نتیجے میں ان ٹریٹڈ اور ان ایڈیٹڈ انفارمیشن قوم تک پہنچا کر قوم کو ذھنی مریض بنا دیا گیا ہے ۔ ھیجانی کیفیت میں ٹی وی اسکرین دیکھنے والی قوم کو بیمار بنا دیاگیا ہے ۔
اسیے حالات میں کہ جب ایک اور کھلونا ہر رپورٹر کو تھمایا جا رہا ہے ۔ کہ اپنے موبائل فون سے شوٹ بھی خود کرو ،اسکرپٹ خود لکھ کر اسی موبائل فون سے وائس اور بھی خود کرو اور اسی اسمارٹ فون سے وڈیو ایڈیٹنگ کرکے خبری پیکج ڈائریکیٹ نیوز روم کو بھیج دو ۔ اسکے نتیجے میں مستقبل قریب میں ٹی وی اسکرین مزید خراب ہوتی نظر آ رہی ہے ۔ اندازہ ہے کہ اس کے نتیجے میں ٹی وی دیکھنے والے ناظرین کی تعداد 37 فیصد سے بھی مزید کم ہو جائے گی ۔
ایسے حالات میں پاکستان میں پیشہ صحافت اور صحافیوں کو 10 بڑے چیلنج درپیش ہیں جن کا مقابلہ کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔
11۔ اس وقت پاکستانی میڈیا دو حصوں میں منقسم ہے ، جسمیں سے ایک خود ساختہ مین اسٹریم میڈیا ( قومی میڈیا ) کہلاتا ہے ، جبکہ دوسرے کو ریجنل میڈیا یا لوکل میڈیا کا نام دیا جاتا ہے ۔ خود مین اسٹریم میڈیا بھی سیاسی بنیادوں پر تقسیم کا شکار ہے ۔ غیر جانبدار قومی بیانیہ کی بحث جو کہ مین اسٹریم میڈیا کا اہم کام ہے ۔ مین اسٹریم میڈیا اپنا وہ فرض نبھاتا ہوا نظر نہیں آتا ۔ کشمیر مین اسٹریم میڈیا میں صرف تب نظر آتا ہے جب زلزلہ آتا ہے ۔۔۔۔ خیبر ایجنسی مین اسٹریم میڈیا یں تب نظر آتی ہے جب وہاں کوئی خود کش بمبار پھٹتا ہے ۔۔۔۔۔۔ بلو چستان مین اسٹریم میڈیا میں تب نظر آتا ہے جب وہاں کوئی دہشت گردی کا واقعہ رونما ہوجائے ۔۔۔۔جبکہ دوسری جانب یہی مین اسٹریم میڈیا کسی نہ کسی سیاسی پارٹی کا ایجنڈا ٹوہ کرتا ہوا نظر آتا ہے ۔ جسکا اظہار اسکی نیوز فارمیٹنگ اور پرو گرامنگ سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے ۔
22۔دوسری جانب یہی مین اسٹریم میڈیا لوکل میڈیا یا ریجنل میڈیا کی طرف سے اٹھائے گئے ان عوامی مسائل کو اجاگر کرنے میں ناکام رہا ہے جو واقعی عوامی مسائل اور عوامی اشوز ہیں ۔ بعض اوقات مین اسٹریم میڈیا کی تمام ترھیڈلائنز صرف سیاسی بیانات اور پولیٹیکل پارٹیز کے بیانات کا احاطہ کرتی نظر آتی ہیں ۔ مین اسٹریم میڈیا کے اس رویے نے عوام الناس کو نیوز چینل سے بد ظن کرکے انٹرٹینمنٹ چینل دیکھنے پر مجبور کیا ہے ۔ جسکی واضح مثال اس دن کی ہے جب کراچی میں ملیر کے ایس پی راو انوار کو معطل کیا گیا ۔ دوسری جانب اسی دن خیبر ایجنسی کی مسجد میں بم دھماکے میں درجنوں لوگ جاں بحق ہو گئے ۔ لیکن مین اسٹریم میڈیا کیلئے راو انوار کی معطلی کی خبر اہم تھی ، کئی گھنٹوں تک اہم قومی چینلز کی ھیڈ لائن اسٹوری تھی ۔ جبکہ خیبر ایجنسی میں انسانی جانوں کا ضیاع اس نام نہاد قومی میڈیا میں جگہ نہیں بنا پایا ۔
یعنی عوام جسے خبر سمجھتے ہیں ۔۔۔۔ مین اسٹریم میڈیا اسے خبر ہی نہیں گردانتا ۔۔۔۔ نہ مین اسٹریم میڈیا میں اس اشو کیلئے کوئی جگہ ہوتی ہے ۔ محسن بھوپالی نے ایسے ہی میڈیا کیلئے کہا تھا ۔
جو دل کو ہے خبر ۔ نہیں ملتی کہیں خبر
ہر روز اک عذاب ہے اخبار دیکھنا
33۔ دنیا بھر میں ( ھارڈ پوسٹنگ ) کی ایک اصطلاح رائج ہے ۔ کہ جہاں جس علاقے میں خظرات ذیادہ ہوں ، کنفلکٹ زون ہو وہاں پر متعین صحافی کے پرکس اور اسکو ملنے والی سہولیات اور مراعات عام صحافی کی بنسبت زیادہ ہوتی ہیں ۔ مثلا نیویارک میں کام کرنے والے سی این این کے ایک رپورٹر کی تنخواہ اور اور اسکی مراعات اس رپورٹر سے کم ہونگی جو افغانستان میں خدمات سرانجام دے رہا ہے ۔ کابل میں خدمات دینے والے صحافی کا معاوضہ اور اسکی مراعات عام صحافیوں سے ہر حال میں ذیادہ ہونگی ۔
لیکن بد قسمتی سے پاکستانی میڈیا میں اسکے بلکل برعکس ہے ۔ بلوچستان اور فاٹا کے کنفلکٹ زون ہوں ، یا سندھ کے ریگستانی علاقے ہوں وہاں کام کرنے والے صحافیوں کی اجرت اور اسکی مراعات بلکل معمولی ہوتی ہیں ۔ جبکہ اسکے مقابلے میں کراچی ، لاہور اور اسلام آباد کے ائر کنڈیشننڈ نیوز روم میں کام کرنے والے صحافی کی مراعات اس ھارڈ پوسٹنگ والے صحافی سے ذیادہ ہوتی ہیں ۔ پاکستانی میڈیا انڈسٹری میں اس تصور کو بدلنا ہوگا ۔ یہی ا س وقت کا تیسرا بڑا چیلنج ہے ۔
44۔ پاکستانی میڈیا کا المیہ یہ ہے کہ پاکستانی میڈیا کیمرہ ڈومنیٹڈ میڈیا ہو گیا ہے ۔ سمجھا یہ جاتا ہے کہ جس کے پاس کیمرہ نہیں شاید وہ صحافی نہیں اسکی اب کوئی اہمیت ہی نہیں ۔ جبکہ ایک پروفیشنل رپورٹر یا ایک پریزینٹر کی حیثیت سے اگر کیمرہ آپ پر ہے ، تو آپ کی کوشش ہونی چاہئیے کہ آپ جتنا جلدی ممکن ہو کیمرہ سے جان چھڑائیں ۔ کیونکہ جتنی دیر آپ کیمرہ پہ رہینگے آپ کی شخصیت ایکسپوز ہونا شروع ہو جاتی ہے ۔ آپ کی کمزوریاں اور کوتا ہیاں لوگوں پر آشکار ہونا شروع ہو جاتی ہیں ۔ ۔ کیمرہ پہ آنے والے رپورٹرز کے ھاتھ میں کبھی نوٹس نہیں ہوتے ۔ یہ نوٹس ایک رپورٹر کی خبر کو رپورٹ کرنے میں بہترین مددگار ثابت ہوتے ہیں ۔ لیکن بغیر نوٹس کے بولے چلے جانے کی روش نے بھی عام ناظر کو نیوز چینل سے دور کیا ہے ۔
55۔ پاکستانی صحافت کو ایک بہت بڑا چیلنج یہ بھی درپیش ہے کہ اسے اب فوری طور پر اینکر پرسن ، پریزینٹر اور ایک صحافی کی کیٹیگری کو الگ کرنا ہو گا ۔ ہوتا یہ ہے کہ ایک صاحب جسکا صحافت سے دور دراز سے بھی کوئی واسطہ نہیں ہوتا ۔ جس نے کبھی زندگی میں بنیادی رپورٹنگ نہیں کی ہوتی ۔۔۔۔ٹی وی اسکرین پر دو چار پروگرام پریزنٹ کرکے اپنے آپکو صحافی سمجھ رہا ہوتا ہے ۔ اور پوری قوم اسے ہی صحافی گردان رہی ہوتی ہے ۔اور یہی وہ نام نہاد صحافی ہوتا ہے جو مرنے والے کے لواحقین سے پوچھ رہا ہوتا ہے کہ آپ کیسا محسوس کررہے ہیں ۔۔۔۔ اور اس سے جو بھی غلطیاں سرزد ہوتی ہیں وہ سب اہل صحافت کے کھاتے میں ڈال دی جاتی ہیں ۔ پاکستان کے صحافیوں کو اب بہت جلد یہ کیٹیگریز بنانا ہونگی کہ آیا کوئی شخص صحافی ہے یا اینکر اور پریزنٹر ۔ ۔۔۔۔ اینکر پریزنٹر اور صحا فی کی کیٹیگریز الگ الگ کرنا ہوں گی
66۔ یہ اب ایک عام معمول بن گیا ہے کہ سوشل میڈیا پر چلنے والی ایک افواہ کچھ ہی دیر میں نیوز چینل کی اسکرین پر خبر کی شکل میں چلتی ہوئی نظر آتی ہے ۔ لوگ جب کسی صحافی کو سوشل میڈیا پہ فالو کرتے ہیں تو وہ آپ سے کسی نیوز کی توقع کر رہے ہوتے ہیں افواہ کی نہیں ۔ اور اگر اسکے بدلے انہیں ایک افواہ ملے تو وہ بد ظن ہو جاتے ہیں ۔ لہذا افواہ کو نیوز چینل کی خبر میں بدلنے کے رجحان کو ختم کرنا ہو گا ۔۔۔
77۔ لائیو نیوز کے کلچر کے بعد نیوز رومز کے اندر اب لازما یہ کیٹیگریز بننی چاہییں کہ کون سا رپورٹر لائیو نیوز کور کریگا اور کون نہیں ۔۔۔۔ کون سا رپورٹر لائیو بیپر دیگا اور کون نہیں ۔ ۔۔۔۔ کونسا رپورٹر حساس رپورٹنگ اور اشوز کو کور کریگا اور کون نہیں ۔۔۔۔۔اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اب ہر صحافی کو بذات خود صحافتی ضابطوں اور اقدار کی پیروی کرنی ہوگی ۔
88۔ ریٹنگ کے دور میں اب پاکستانی میڈیا اس انتہا پہ پہنچ گیا ہے کہ وہ خبرکو رپورٹ کرنے کے بجائے خبر کو تخلیق کرنے پر تل گیا ہے ، جو کسی طوربھی قابل قبول نہیں ہے ۔ اس خطرناک رجحان نے صحافت کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں ۔۔۔۔نیوز روم کی جانب سے ایک رپورٹر سے یہ فرمائش کی جاتی ہے کہ کوئی خبر بناو ۔۔۔۔ کسی خبر میں مصالحہ لگاو ۔۔۔۔ اس خبر میں کچھ ڈالو ۔۔۔۔۔ خبر کو تخلیق کرنا کسی طور پر بھی درست نہیں اور میڈہیا مینیجرز کو اپنی اس روش کو اب بدلنا ہوگا ۔
99۔ ہمیں تو بیس سالوں تک استادوں نے نیوز رومز میں یہی سکھایا کہ سارا جرنلزم کرنٹ افیئر کا کھیل ہے ۔۔۔ لیکن ہمارے ہاں نئے رجحان یہ ہیں کہ کرنٹ افیئر صرف سیاست ہے ۔ جو کسی طور درست نہیں ۔۔۔۔ کرنٹ افیئر کے سارے پروگرام صرف سیاسی بیان بازی کا احاطہ کرتے نظر آتے ہیں ۔ ہمیں ایسے میڈیا مینیجرز کیلئے ایک نئی کھڑکی بنا کر انہیں دکھانا اور سمجھانا ہوگا کہ جو کچھ ہماری روز مرہ کی زندگیوں کو افیکٹ کر رہا ہے ۔ وہی کرنٹ افیئر ہے ۔وہی اب ہمارے پروگراموں کا سبجیکٹ ہونا چاہئیے۔ اس رجحان کو نئے سرے سے دیکھنے اور بدلنے کی ضرورت ہے ۔
1010۔ ایک اور بڑا اور خطرناک رجحان جو پروان چڑھ رہا ہے ۔ جسے چیلنج سمجھ کر بدلنا ہے وہ ہے خواہشات کو زرائع بنانا۔ رپورٹر ٹی وی اسکرین پہ یہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ زرائع کا یہ کہنا ہے ۔۔۔ یا مبصرین کا خیال ہے ۔۔۔۔ یہ کوئی زرائع اور مبصرین نہیں ہوتے یہ رپورٹر کی خواہشات ہوتی ہیں جسے وہ خبر بنا کر پیش کر رہا ہوتا ہے ۔ ۔۔۔ ( ہم سمجھتے ہیں کہ زرائع اور سورس بہت مقدس ہیں لیکن خواہشات کو زرائع کہنا ۔ یا مبصر کا لبادہ اڑھانا کسی طور قابل قبول نہیں ۔
یہ وہ چیدہ چیدہ چیلینجز ہیں جن سے نبرد آزما ہو کر ہم صحافت کو اور ٹی وی اسکرین کو کسی حد تک عوام کیلئے قابل قبول بنا سکتے ہیں ۔
ان چیلنجز کو مد نظر رکھتے ہوئے کچھ تجا ویز ہیں ۔ جن پر غور وخوض کیا جانا نہایت ضروری ہے ۔
1۔ کسی بھی صحافی پر ہونے والے حملے کی صورت میں تمام اخبارات کو ایک جوانئٹ ایڈیٹوریل لکھنا چاہئیے ۔ یہ مشترکہ ایڈیٹوریل حکومت اور ایجنسیوں کو کسی حد تک جنجھوڑنے میں کامیاب ہو گا ۔
2۔ میڈیا ھاوسز کو پابند کیا جائے کہ وہ کنفلکٹ زون اور وار زون میں کام کرنے والے صھافیوں اور ورکرز کی ٹریننگ کا بندو بست کرے ۔ اور انہیں ا س بات کا بھی پابند بنایا جائے کہ وہ صحافیوں اور میڈیا ورکرز کی انشورنس کر وائینگے ۔
3۔ متاثرہ صحافیوں اور ان کی فمیلیز کیلئے ایک سیفٹی فنڈ ہو نا چاہئیے ۔ جو انکی ری ھیبیلیتیشن پر خرچ کیا جانا چاہئیے ۔
4۔ کسی بھی صھافی پر ہونے والے حملے کو اے ٹی سی ؒا کے تحت ڈیل کیا جائے ۔ اسکا مقدمہ دہشت گردی ایکٹ کے تحت ہی درج کیا جانا چاہئیے ۔
5۔ سزا سے استثنیٰ کے تصور کو ختم کیا جائے ۔ اور اس سلسلے میں صحافیوں کے مقدمات کسے اسپیڈی ٹرائل کیلئے الگ سے خصوصی پروسیکیوٹرز کا تقرر کیا جائے ۔
6۔ وفاقی اور صوبائی سطح پر جنرنلسٹ سیفٹی لاء کے حوالے سے خصوصی قانون سازی کی جائے ۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ان تجاویز پر عمل کرکے ہم کسی حد تک صحافیوں کو محفوظ کر سکتے ہیں ۔۔۔۔۔