کراچی کی سماجی تبدیلی اورنئی منصوبہ سازی

دھندلی لکیریں
August 22, 2022
موسمیاتی تبدیلی : پاکستان میں 1961 کے بعد جولائی کی سب سے زیادہ بارشیں ریکارڈ
August 26, 2022

کراچی کی سماجی تبدیلی اورنئی منصوبہ سازی

(غلام مصطفیٰ)

کراچی 16 ملین   کی آبادی رکھنے والا  پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے ۔ جو سندھ کی  آبادی کا  ایک تہائی اور پاکستان  کی شہری آبادی کا   پانچواں     حصہ ہے ۔ تین ھزار چھ سو اسکوائر کلومیٹر پر پھیلے  شہر کراچی  کی معیشت   سیاسی گروہ بندیوں  میں جکڑی ہوئی ہے۔ ملکی معیشت کا بڑا مرکز ہونے کے ناطے یہ ملک میں روزگار کی فراہمی کا بھی  سب سے بڑا زریعہ ہے ۔  2015 سے  پہلے کے دس سالوں  میں اس شہر میں غربت کی شرح   9 فیصد تک آگئی  جو ایک بڑی اور   نمایاں  کمی  ہے ۔  اس سے پہلے 2004اور  2005  میں  یہاں غربت کی  شرح 23 فیصد تھی ۔ 2019  کی  ایک رپورٹ  کے مطابق  شہر  کراچی کی جی ڈی پی 164  بلین   ڈالرز  ہے  اس طرح اس شہر کی روزانہ  جی ڈی پی 449 ملین ڈالرز بنتی ہے

کراچی   کو غریب پرور شہر کہا جاتا ہے ، اس نے ہر دور میں  یہاں قدم رکھنے والوں کو ماں کی ممتا دی ہے ، اور اسکی گود میں آنے والوں  نے  سماجی اور معاشی طور پر ترقی کی ہے ۔ اس ماں نے آج تک  اپنے کسی بچے کو بھوکا نہیں  رکھا ، ہر ایک کو  پیٹ بھرنے کو نوالہ مہیا کیا ۔۔۔ آج کے   مہنگے سماج میں بھی کراچی کا  شمار  دنیا  کے تین بڑے سستے شہروں میں  کیا جاتا ہے ، جہاں ایک مزدور بیس روپے میں  کھانا کھا سکتا ہے ۔   کراچی  کی ہمہ گیری ، اور اسکے تنوع  نے یہاں  بتدریج  مختلف   سماجی  تبدیلیوں کی راہ ہموار کی ہے ، جسکے باعث یہاں  کے مسائل   کی بھی مختلف جہتیں ہیں ۔ جنہیں نئی منصوبہ سازی سے  حل کیا جا سکتا ہے ۔

کراچی بنیادی طور پر  ایک معاشی حب ہے جہاں  صنعتی  ترقی نے روزگار  کے وسیع مواقع پیدا کئے ہیں ۔ جس کی بنا پر نہ صرف  اندرون سندھ بلکہ  اندرون  ملک سے بھی یہاں بڑے پیمانے پر ھجرت  کو فروغ  دیا ۔۔۔  اسی ھجرت نے    یہاں کے مسائل  میں اضافہ کیا  ہے ۔

کراچی  کے مسائل کی  بڑی وجہ اس شہر میں آنے والی سماجی  اور معاشی و معاشرتی تبدیلیاں  ہیں  ۔ جو ملک کے دیگر حصوں سے ہونے والی  اندرون ملک    ھجرت  کے سبب ہیں  ۔ ان سماجی اور معاشرتی و معاشی  تبدیلیوں  کو سمجھنے کیلئے  ایک  نظر ملک  کی معیشت  پہ ڈالنی ہوگی ۔

یو  این ڈی پی  کی 2019 کی ھیومن ڈولپمنٹ  رپورٹ   کے مطابق   189 ممالک میں ھیومن ڈولپمنٹ  انڈکس میں پاکستان کا درجہ 152 واں ہے ۔ رپورٹ  کے مطابق پاکستان میں قومی غربت   کی شرح  38.3 فیصد  ہے(سات کروڑ  پچپن لاکھ )  ۔ جبکہ مزید 12.9  افراد  غربت کے خطرے کا شکار ہیں ۔ (دو کروڑ  چون لاکھ افراد) ۔

  رپورٹ  کے مطابق 17 فیصد پاکستانیوں کی یومیہ  آمدنی  ایک امریکی  ڈالر  سے بھی کم ہے ۔ جبکہ  73.6 فیصد آبادی   کی آمدن  2 امریکی ڈالرز  سے نیچے  ۔ جبکہ غربت کی شرح  2002 سے مسلسل  7.8 فیصد  پر برقرار ہے ۔

کسی بھی معاشرے کیلئے  مندرجہ بالا  اعدادو شمار بڑے ہی خطرناک ہیں ۔2018 کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی ا ٓبادی  22 کرورڑسے متجاوز ہے ۔ جس میں سے   70 لاکھ  لوگ    کچی آبادیوں میں بستے ہیں ۔  جبکہ ایگریکلچرل لینڈ پر بنائے گئے مکانات  میں ایک کروڑ  بیس لاکھ لوگ بستے ہیں ۔  اس کے علاوہ  بے ضابطہ تعمیر کردہ  مکانات  میں 34.5  ملین آبادی رہائش پذیر ہے ۔  جبکہ اندورن  سندھ   ذیادہ  گنجانیت کی حامل آبادیاں  غریب واڑوں میں بدل  دی گئیں  وہ آبادیاں  اس میں شامل نہیں ہیں  جسکے مکین ماحولیاتی طور    پر انتہائی خراب حالات میں زندگی گذار رہے ہیں ۔

 مندجہ بالا حقائق انتہائی تلخ ہیں ، جس سے واضح  ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میں   غریبوں اور امیروں کے درمیان فرق مسلسل  بڑھ رہا ہے ۔  اور یہ ایک ایسا ملک ہے جس  میں دیہی ، شہری  اور صوبائی سطح پر   سماجی اور  معاشی  طور پر واضح تفریق  موجود ہے ۔ اس سماجی  تفریق نے  معاشرے  میں  معاشی ناہمواری میں بھی  اہم کردار ادا کیا ہے ۔  جس کےنتیجے کے طور پر   بہتر روز گار کے حصول  اور معاشی  ناہموری   کی دلدل سے نکلنے کیلئے    اندرون ملک بڑے پیمانے پر ھجرت ہوئی ہے

شہروں کی صنعتی ترقی   نے غیر ہنر مند اور ہنر مند مزدوروں   کی مانگ کو جنم دیا  یہ ہنر مندی دیہات میں  رہنے والے دست کار  طبقے میں  موجود تھی ۔  دوسری جانب ھجرتے کرنے والوں نے  شہری آازادیوں کا تجربہ کیا  اور دیہی علاقوں سے اپنے بچوں کو تعلیم  کیلئے اور جاگیرداروں کے تسلط سے ا ٓذاد کرانے کیلئے شہروں میں سکونت کو ترجیح  کی ۔ شہری علاقوں  اور چھوٹے  شہروں سے بڑے شہروں  میں ھجرت کی بڑی وجہ   سماجی طور پر معاشرے میں  تعلیم کا شعور بھی ہے کہ لوگ اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دلانا چاہتے ہیں اور  چھوٹے  شہروں  میں دیہی علاقوں سے آنے والی لڑکیوں کے لئے ہاسٹل کی سہولیات   ناپید ہیں ، بہت سے دیہات میں  مڈل اور ہائی اسکول بھی نہیں ہیں  اور جہاں ہیں  وہاں تعلیم کا فقدان ہے   اس  صورت حال سے   سندھ کا دیہی   طبقہ   سب سے ذیادہ متاثر ہوا ہے ۔

  ۔ جبکہ افغان مہاجرین  کی ھجرت اسکے علاوہ ہے ۔  یہ ھجرت ، ایک صوبے سے دوسرے صوبے میں بھی ہوئی ہے ،  ایک ہی صوبے کے چھوٹے  شہروں سے بڑے شہروں میں بھی ہوئی ہے  اور ایک ہی صوبے کے دیہاتوں سے شہروں میں ہوئی ہے ۔    اور اس ھجرت  نے     شہری معاشرے  کو  نئے مسائل سے دوچار کیا ہے ۔

نئی مردم  شماری  کی ذیادہ تفصیلات  تو حکومت نے ابھی جاری نہیں کی  ہیں لیکن

1989 کی مردم  شماری کے مطابق   پاکستان کی کل آبادی کے  8 فیصد   نے اپنے علاقوں سے  ھجرت کی ہے ۔  اس 8 فیصد میں  سے 24.8  فیصد  ھجرت کرنے والوں  نے  کراچی  کا رخ کیا ہے  ، جس میں افغانی  اور   پشتو  بولنے والوں کی تعداد  سب سے ذیادہ ہے ۔

ایک دوسرے جائزے کے مطابق   پنجاب میں ھجرت  کرنے  والے 1.6 فیصد ہیں ، سرحد  میں   ھجرتے کرکے جانے والے 3 فیصد  ، بلوچستان میں  5.1 فیصد ( جس میں افغان مہاجرین شامل ہیں )    جبکہ سب سے ذیادہ  سندھ  میں  7.4 فیصد  ہے ۔  اس تعداد  سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ھجرت پسماندہ علاقوں سے   ہوتی ہے جہاں  زمین اور وسائل پر دباو ہوتا ہے ۔ اور جہاں صنعتی ترقی   نہیں ہوتی  اور زرائع مواصلات بہت خراب ہوتے ہیں ۔  سب سے بڑی ھجرت  صوبہ پختونخواہ   سے سندھ کی طرف ہوئی ہے اور  خصوصیت سے کراچی میں ہوئی ہے ۔  اور  حالیہ سالوں میں  سوات اور وزیرستان  کے آپریشن کی وجہ  سے ہونے والی  ھجرت اسکے علاوہ ہے ۔

ایک سروے  میں   کچھ اور دلچسپ حقائق  سامنے آئے ہیں  ۔ اندرون ملک ھجرت کرنے والوں   کے  مطابق  17 فیصد  نے شادی  کی وجہ سے ھجرت کی ،  12 فیصد  نے ملازمت کی وجہ سے ھجرت کی  اور 9 فیصد  نے کاروبار کی وجہ سے  ھجرت کی ہے ۔  اس لحاظ سے ذیادہ تر ھجرت   خاندانی ، سماجی اور  معاشی  مسائل  کی  وجہ سے ہوئی ہے ۔ یہی معاشرتی ناہمواری اور عدم مساوات  اس ھجرت کا سب سے بڑا سبب  ہے ۔   لوگوں نے بہتر مستقبل کیلئے   اپنے ہی ملک میں  ھجرت  کا    دکھ اٹھایا ہے ۔  اور یہ کام اتنا آسان بھی نہیں ہے ۔

کراچی کے سماجی  مطالعے سے پتہ چلتا ہے  کہ یہاں ھجرت کرکے آنے  والوں   کو مقامی آبادی نے اپنے اندر ضم  نہیں ہونے دیا ، نہ  ہی انہیں اپنایا ، جسکے نتیجے  میں   یہاں ھجرت کرکےا ٓنے والوں  نے  اپنےآپ کو  چھوٹے چھوٹے  پاکٹس  ، کالونیوں   اور مخصوص  علاقوں  میں  آباد کیا ، تاکہ اپنی کمیونٹی کے درمیان   انہیں تحفظ کا احساس رہے  ۔ اس لحاظ  سے سندھی  آبادی نے   اپنے آپ کو ، سچل  ، ملیر  ،  قائد آباد ،  اسٹل ٹاون اور گلشن حدید  کے علاقوں میں  آباد کیا ۔ جبکہ پختون آبادیوں نے اپنے آپ کو   سہراب گوٹھ ،  قائد ٓباد ، لانڈھی ، بنارس  ،  شیرشاہ  اور کیماڑی   اور  بلدیہ کے علاقوں  میں آباد کیا ۔ پرانی کچی آبادیاں جو کبھی  اس شہر کے ارد گرد ایک جھالر  کی طرح  پھیلی ہوئی تھیں  اب وہ  بھی  شہر سے جڑ کر پوری طرح  شہر میں جذب ہو چکی ہیں ۔  انہیں ایک  معاشرتی اور  طبعی ڈھانچہ تو  فراہم ہو گیا ہے  مگر سیاسی نمائندگی اور شہر کے سسٹم میں انکی حصہ داری  تا   حال نہیں مل سکی ہے ۔

یہ سب   ھجرت کرنے والے اس  طاعون زدہ معیشت کے باسی ہیں ۔ جس  نے  اس ملک کے معاشرے  کو امیر اور غریب  کی دو واضح لکیروں  میں تقسیم  کردیا ۔ ہے

 ایک طرف چمچماتی  گاڑیاں ہیں ، ایک سے ایک نئی وضع اور قطع کا لباس ، جھٹ  پٹ  تیار کھانوں ( فاسٹ  فوڈ)  کی ریل پیل ہے ۔  خریداری کے محفوظ  شاپنگ مال ہیں ،  مہنگے طعام و   چائے خانے ہیں ، نجی شعبے میں شاندار اسکول  اور یونیورسٹیاں  اور  صارفیت کو بام عروج پر پہنچانے والے اشتہارات  ہیں   تو دوسری جانب اس   شہر میں  عدم مساوات اور  بے روزگاری کے حامل   افراد کے جتھے ہیں  جو  مزدوری کی تلاش  میں  آپ کو ہر  صبح  شہر کی  ہر چورنگی پر نظر آئینگے ، کہ ایک دن کی مزدوری مل جائے تو  پیٹ کی آگ بجھا پائیں۔  امارت اور غربت کا بڑھتا ہوا فرق وہ سب سے برا عنصر ہے  جس  نے    میرے شہر  کے    نچلے اور   متوسط  آمدن  کے طبقات کے نوجوانوں کو سماجی  اور سیاسی طور پر تنہا کر دیا ہے ۔

کراچی کے اصل مسائل اس ھجرت کے بعد شروع ہوئے ہیں ،   اس وقت   کراچی شہر کی کل آبادی میں 25 فیصد   پختون آبادی شامل ہے ،جو  40 سے 50 لاکھ  کے قریب ہے  جس میں  50 ھزار افغان مہاجرین بھی  ہیں ۔ لیکن  اس ملک کے منصوبہ سازوں نے   اتنی  بڑی ھجرت کے نتیجے میں ہونے والی سماجی تبدیلی کے بعد   ھجرت کرکے آنے والوں  کو  اس شہر کے سسٹم کا حصہ نہیں بنایا ۔

جب بھی دنیا میں کہیں بھی بڑے   پیمانے پر ھجرت ہوتی ہے تو  ایک نسل اپنے آپ کو   معاشی استحکام پہ لگا دیتی ہے ۔ اور پھر انکی دوسری اور تیسری نسل اپنے معاشرے  کے مسائل کے حل کیلئے  اپنا سیاسی  حصہ مانگتی   ہے اور زندہ معاشرے   اچھی منصوبہ بندئی کے ساتھ      شہر کے اسٹیک ہولڈرز کو شہر کی حصہ  داری   میں شامل کرکے    شہر کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں ۔ جسکی زندہ مثال لندن کی ہے ، جہاں   پاکستان سے ھجرت کرنے والوں  کی دوسری نسل  نے اب وہاں کی مقامی    سیاست میں  اپنا   حصہ مانگا  ۔ اور  برطانیہ کے زندہ معاشرے  نے صادق    خان کی شکل میں  ان کمیونٹیوں کو انکا حصہ دیکر  انہیں اپنے شہر اور اپنے معاشرے میں ضم کیا ہے ۔

لیکن کراچی میں  کی جانے والی سیاسی    حلقہ بندیاں  اس طرح کی جاتی ہے کہ   شہر کے مختلف علاقوں  میں  ھجرت کرکے آْنے والوں  کا کوئی  نمائندہ   منتخب ہو کر   کسی فورم پر نہ آ جائے  ۔ مثلا   اگر کسی محلے میں   پختون ا ٓبادی ذیادہ ہے ، یا سندھی آبادی زیادہ ہے  تو اسے   دو حلقوں میں تقسیم کردیا جاتا ہے  تا کہ   انکا ووٹ تقسیم ہو جائے اور  ان کا نمائندہ   ووٹ کے زریعے منتخب ہو کر نہ آ جائے ۔   ایسے معاشروں میں   جب    معاشرے میں رہنے والوں   کو اپنے مسائل  کے حل کیلئے سسٹم  میں حصہ دار نہیں بنایا جاتا ، تو عدم تحفظ    کا    احساس شدت سے ابھر کر سامنے آ تا ہے  اور    یہی وہ  احساس ہے جو  اسلحے کے کلچر کو  فروغ دیتا ہے۔ اور  طاقت  کا حصول ہی مسائل کے حل کی   آخری امید ٹہرتا ہے۔  نتیجتا معاشرے میں وہ   انارکی پھیلتی ہے جس کا      مشاہدہ ہم نے حالیہ برسوں میں کراچی میں کیا ہے

 1998 کی مردم شماری کے مطابق   کراچی میں  مختلف زبانین   بولنے والوں کی    تفصیلات کچھ اس طرح  ہیں ۔

 اردو   48.52 فیصد

پنجابی     13.94 فیصد

پشتو  11.42 فیصد

 سندھی  7.22 فیصد

 بلوچی  4.34 فیصد

 سرائیکی   2.11 فیصد

مختلف  دوسری  زبانین بولنے والے  12.44 فیصد

 اور  اب تو   سوات اور وزیرستان کے   حالیہ آپریشن کے بعد  یہ تعداد  بہت مختلف ہوگئی ہے  ۔  شاید  باقی کمیونٹیز  کے لوگوں کی تعداد  اب 57 سے  58 فیصد ہو  لیکن  شہری  مسائل   میں  58 فیصد  دوسری آبادیوں  کی نمائندگی   اور  شہری   ترقی میں ا نکی حصہ داری  نہ ہونے کے برابر  ہے   ۔ اور  یہی    حال پچھلےبلدیاتی انتخابات کے نتائج    میں کھل کر سامنے آیا   ۔  جسکی وجہ سے  کوئی بھی اس شہر کو اپنانے اور اسکے مسائل کو اون کرنے کیلئے  تیار نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ مسلسل  نظر انداز کئے جانے کے سبب  شہر کا انفرا  اسٹرکچر  ، سڑکیں ، ٹرانسپورٹ  ، پانی کی فراہمی و نکاسی  آب  اور  کچرے کو ٹھکانے لگانے  کا سارا نظام    درہم برہم ہو چکا ہے ۔ اور ملک کا  سب سے بڑا شہر کچرے  کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکا ہے ۔ ورلڈ  بینک کی ایک حالیہ رپورٹ  کے مطابق اس وقت شہر  کراچی کو  اپنے انفرا اسٹرکچر ، سروسز ڈلیوری ،ٹرانسپورٹ  سسٹم  ، واٹر سپلائی اور نکاسی آب اور  میونسپل سولڈ ویسٹ   کو ٹھکانے لگانے  کیلئے  دس   سال  کیلئے کو  9  سے  10 ارب ڈالرز کی ضرورت ہے ۔ دوسری جانب  حقیقت  یہ ہے  کہ  شہر کراچی  کی  30  فیصد زمین  سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ  کے دائرہ اختیار میں ہے جبکہ بقیہ 70  فیصد زمین اور اس پر منصوبہ بندی و سروسز کی فراہمی  کی ذمہ داری  وفاقی ، صوبائی اور لوکل سطح پر 20  مختلف اداروں  کے درمیان منقسم ہے ۔ یہ 20 ایجنسیاں  کراچی کی ستر فیصد زمین کے مالکانہ حقوق  تو رکھتی ہیں لیکن  اس شہر  کی بہتری کے کسی منصوبے کیلئے زمین دینے کو تیار  نہیں ۔

زندہ معاشرے  اپنے مسائل کی حقیقی وجوہات  جان کر  بہتر منصوبہ بندی   سے ان کا تدارک کرتے ہیں ۔  ہم امید کرتے   ہیں کہ کراچی    کے اصل منصوبہ ساز   ان امور پر  توجہ دیکر  شہری مسائل  کو حل کرینگے ،  اور  لندن کی طرح دوسری کمیونٹی  کے لوگوں کو شہری ترقی میں حصہ دار بنا کر   بہتر معاشرے کی تشکیل میں  اپنا  فرض ادا کرینگے ،  ورنہ آپریشن کبھی دیر پا ثابت نہیں ہوتے ۔

آئندہ برسوں میں کراچی میں ایک بلکل ہی مختلف  معاشرہ سامنے آئے گا۔  لہذا ہمیں  اپنے   سیاسی  اور سماجی نظام  میں بڑی تبدیلیوں  اور  اصلاحات کی ضرورت ہے ، اگر ہم ایسا نہ کرسکے  تو سماج میں سیاسی  انقطاع بڑھے گا  اور اسکے نتیجے میں شہر میں معاشرتی  لحاظ سے  مزید تصادم  پیدا ہوگا ، اور شہری معاشرہ مزید چھوٹی  چھوٹی ٹکڑیوں میں بٹ جائے گا ۔

حوالہ جات

  • Karachi land Use Study by Shehri
  • UNDP Human Development Index Report 2019
  • Karachi Climate Change by Sheri

Statistics Bureau of Pakistan

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *