برف پوش پہاڑوں کے دامن میں کھلے سیاہ گلاب ایک رنگین تہذب کا پتہ دیتے ہیں۔ میں نے کالے گلابوں کی، زندگی کے اجالوں سے بھرپور، نیلی آنکھیں دیکھیں تو شہری زندگی کے جھمیلوں کی جگہ سکون اور امیدوں کے دریچے کھل گئے۔ کالی لباس میں لپٹی بلا کسی خوف و خطر پہاڑوں سے گزرتی کچی پکڈنڈی پر حضرت گُل اپنی سہلیوں کے ہمراہ کھیلتی، اٹھلاتی چلی جا رہی تھی۔ ان کی فکروں سے آزاد ہنسی کیلاشی عورتوں کے تحفظ کا پتہ دے رہی تھیں۔
پاکستان کی دوسری پسماندہ خواتین کے برعکس ان سیاہ پوش خواتین کی زندگی میں سیاہی نہیں ہے ، ان کے چہرے معاشرے کی دقیانوسی رسومات اور سوچ سے مرجھائے ہوئے نہیں ہیں بلکہ آزادی کے کے ساتھ ساتھ اپنے حقوق کے تحفظ کے احساس سے دمکتے دکھائی دیتے ہیں۔ نہ ہی ان کی آنکھوں میں حسرتوں کے رنگ ہیں ، ان میں خوابوں اور امیدوں اور زندگی کے رنگ بکھرے نظر آتے ہیں۔
دو صدی پرانی کیلاشی قوم کی شناخت سکڑ کر وادی کیلاش کے تین گاؤں یعنی بمبوریت، رمبور اور بریر تک محدود ہوگئی ہے۔ لیکن ان کی رنگوں سے گندھی ثقافت آج بھی یہاں کی سیاہ پوش خواتین نے زندہ رکھی ہوئی ہیں۔یہاں کی نئی نسل اس اپنی وادی کے مسائل بخوبی جانتی ہے ، آنےوالی چیلنجز سے آگاہ ہیں اور آج کے زمانے کے ساتھ مقابلہ کرنے لیے تیار ہے۔۔کیلاش کی نئی نسل تعلیم یافتہ ہے، کوئی سیاحت میں ڈپلومہ کئے ہوئے ہے توکوئی نرسنگ کا کورس کر رہی ہے، کئی لڑکیاں پاکستان کی شہروں اور بیرونِ ملک بھی نوکریاں کر رہی ہیں۔ والدین اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے لاہور، پشاور اور چترال بھجتے ہیں کیونکہ یہاں یونیورسٹی موجود نہیں ہیں اور معیاری کالجز کی سہولت بھی نہیں ہے، ہاں اسکول اچھے ضرور ہیں۔
کیلاشی خواتین بے باک ضرور ہیں لیکن ان کی ثقافت حیا کی پیراہن لیے ہوئے ہے۔ ان میں پاکی اور ناپاکی کا تصور ویسے ہی پایا جاتا ہے جیسے مختلف مذاہب میں ۔ ہر گاؤں میں آبادی سے کچھ ہی فاصلے پر پہاڑی ندی کے اوپر ایک خوبصورت سا لکڑی کا گھر نما مکان مخصوص خواتین کے لیے بنا ہوتا ہے جسے “بشالی” کا نام دیا گیا ہے۔
کیلاشی لڑکیاں جب بلوغت میں پہنچتی ہیں تو اپنے مخصوص ایام اسی بشالی میں گزارتی ہیں۔ یہاں ان کو گھر کے بچے کھانا دینے آتے ہیں۔ حضرت گل کے مطابق بشالی میں ہر یہاں رہنے والی خواتین کے لئے ہر قسم کی سہولیات موجود ہوتی ہیں جیسے کہ برتن، واشنگ
مشین وغیرہ۔ اسی طرح بچے کی پر عورت پہلے دس دن بشالی میں گزارتی ہے۔ اس کے بعد بھی مکمل پاکی تک وہ گھر کا واش روم نہیں استعمال کر سکتی۔ بشالی ان خواتین کے لئے دوسرے گھر کی مانند ہے جہاں وہ ناپاکی کے ایام سکون اور آرام کر کے گزارتی ہیں۔ بالغ لڑکیوں کو گھر میں بال دھونے کی بھی اجازت نہیں ہوتی۔ عورتیں گھر میں نہا توسکتی ہیں لیکن سر نہیں دھوسکتیں۔ بشالی کے ساتھ نیچے جوپہاڑی ندی بہتی رہی ہوتی ہے، وہاں موجود ایک جگہ کو ‘گا’ کہتے ہیں، اسی جگہ پرعورتیں اپنے کپڑے اور بالوں کو پانی سے صاف کرتی ہیں۔
حضرت گل کے ساتھ وادی گھومتے خوشگوار حیرت کا سامنا بھی ہوا۔ شادی شدہ ہوں یا پھر کنواری، کیلاشی عورتیں مردوں سے گھل مل کر رہتی ہیں۔ چلم جوشت کا تہوار ہو یا پھر چاموس کا، خاندان کے مردوں کے علاوہ وادی کے دوسرے مردوں کے ساتھ بھی خوشی مناتی ہیں، رقص کرتی ہیں۔ یہاں آئے ہوئے سیاحوں سے بھی ان کو جھجھک نہیں ہوتی، ان کو وادی گھماتے، کیلاشی ثقافت اور عقیدوں کے بارے میں بتاتے کیلاشی دوشیزایں بہت خود اعتماد نظر آتی ہیں۔ لیکن اجازت کے بغیر تصویریں کھینچنے جانے پر ان کوبھی اعتراض ہے۔ اب کچھ غیر مہذب سیاحوں کی وجہ سے یہ دوشیزایں سیاحوں کو دیکھ کر اپنے منہ ڈھانپ لیتی ہیں۔
کیلاش میں جبر اور زبردستی کا کہیں نشاں نہیں ملتا۔ یہاں محبت کی شادی کا رواج ہے۔ والدین اپنے بچوں کی پسند کوکھلے دل سے اپناتے ہیں۔ اسی لیے یہاں نہ کسی کو خفیہ تعلقات کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اور نہ زنا جیسی برائی پنپتی ہے۔ شادی کے لیے لڑکا لڑکی کو ایک دوسرے کا پسند آنا لازمی ہے۔ کسی بھی تہوار پر محبوب لڑکی کو اپنے گھر لے جاتا ہے جس کے بعد ﻟﮍﮐﮯ ﮐﮯ ﻭﺍﻟﺪ مذہبی ﻟﮍﮐﯽ ﮐﮯ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﺍﻭﺭ ﮔﺎﺅﮞ ﮐﮯ معززین کو یہ خبر دیتے ﮨﯿﮟ ۔
اسی طرح مذہب بدلنے پر بھی کیلاشی باشندوں میں نہ نفرت پیدا ہوتی ہے اور نہ ہی سماجی بائیکاٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حضرگُل کے والدین مسلمان ہیں، لیکن ان کی اولادوں میں کیلاشی اور مسلمان دونوں ہیں۔ یہ بھائی بہن ایک درستخوان پر کھانا کھاتے ہیں، ایک دوسرے کے تہواروں میں شریک ہوتے ہیں۔ پاکستان کے ان دور افتادہ گاؤں میں امن، سلامتی، مذہبی ہم آہنگی اور بھائی چارے کی زندہ مثالیں آج بھی ملتی ہیں۔
کیلاشی ثقافت میں گھر کے تمام فیصلے خواتین ہی کرتی ہیں۔ گھر کے کام کاج کے ساتھ ساتھ اپنے لیے خوبصورت لباس بننا، مویشیوں کی دیکھ بھال کرنا اور ہر قسم کا حساب کتاب، سب خواتین کی ہی ذمہ داری ہوتی ہے۔ میری سوچ خوشیوں کے مذہب کی پیروکارحضرت گل اور تمام کیلاشی عورتیں یہ تمام انتظامی امور ماتے پہ بل لائے بغیر کیوں سرانجام دیتی ہیں؟ صرف اس لئے کہ انہیں ان کی قدیم روایات اور رسومات نے حقوق اور تحفظ کے تاج پہنائے ہیں۔