معمارِکراچی ۔ پارسی کمیوٹنی کی خدمات

جہاں ذات پات اور مذہب بےمعنی ہو جائیں
September 24, 2022
پرزم پاکستان اور شعور فاؤنڈیشن کا محبتوں اور امن کی جانب پہلا قدم
September 29, 2022

معمارِکراچی ۔ پارسی کمیوٹنی کی خدمات

(شیما صدیقی)

 

کراچی کی تاریخ کا زکر ہو پارسی کمیونٹی  کا  نام نہ آئے

کراچی  کو  مچھیروں کی بستی سے روشنیوں کا شہر  بنانے میں  جہاں برٹش راج  نے اپنا کردار ادا کیا وہیں  پارسی براداری مقامی آبادی کے ساتھ ساتھ کھڑی نظر آتی ہے۔

پارسی مذہب کو دنیا کا قدیم  ترین مذہب سمجھا جاتا ہے۔ جس کا آغازایران سے ہوا ۔ پارسی مذہب کے پیرو کار کم و بیش ہزارسال پہلے ایران سے نکل کر ہمارے خطے کی طرف آئے یعنی  سندھ ، ممبئی اور مہاراشٹر منتقل ہوئے ۔

اس قدیم تہذیب کا اثر اتنا  دور رس رہا ہے کہ آج بھی ایران ،وسط ایشائی ریاستیں  اور ہمارے جنوبی ایشیا   میں  ” نوروز ” اپنی  پوری آب و تاب سے منایا جاتا ہے۔ یعنی ایرانی تہذیب کے قدم جہاں جہاں پہنچے  وہاں   یہ تہوار کہیں مذہبی رنگ کے ساتھ اور کہیں ثقافتی رنگ کے ساتھ   منایا جاتا ہے ۔

شہر کراچی کی بات کریں تو اس  کی تعمیر ، اسے سنوارنے اور خوبصورتی عطا کرنے میں، اس کمیونٹی نے اپنا پورا زور لگا دیا۔ ایڈلجی ڈنشا اور جمشید نسرانجی مہتا  کو بابائے کراچی کہا جائے تو بےجا نہ ہوگا۔ آج   شہر میں پارسی کمیونٹی  کی تعداد کم ہو چکی ہے۔ اس رجحان کا سامنا  پاکستان کو ہی نہیں بلکہ  ہندوستان سے بھی پارسی  کمیونٹی  بیرون ملک منتقل ہوئی ہے۔

دنیا کے قد یم ترین مذاہب میں سے ایک یہ اس کمیونٹی کی خوبی رہی ہے کہ جہاں بسے وہاں اپنی سماجی خدمات کے ذریعے انمٹ نقوش چھوڑدیئے، چاہے وہ ممبئی ہویا کراچی، معمار کراچی کہلائی جانے والی پارسی کمیونٹی نے اپنی جائے پیدائش کا حق اس خوبصورتی سے ادا کیا کہ آج بھی اہل کراچی ان کے قائم کئے گئے سماجی خدمت کے اداروں سے فیض پا رہے ہیں ۔

شہر کراچی کو بہترین ٹائون پلاننگ دی ۔ پرانے کراچی نکل جائیں، صدرسے لے کر کلفٹن تک ہر موڑ پر کوئی نہ کوئی حسین تعمیری شاہکار آپ کے قدم روکے گا۔ چاہے وہ جہانگیر کوٹھاری پریڈ ہو یا کاؤس جی بلڈنگ ۔ قدیم پارسی کالونی ہو یا  جمشید باغ  پارسیوں  کو کراچی کا قدیم  رہائشی بناتے ہیں اور اردشیر کاؤس جی  کا شمار تو کراچی کے ان بیٹوں میں ہوتا تھا جس نے مٹی کا حق  اس طرح  ادا کیا کہ اس کے حق کے لئے ڈٹ گئے ۔

کراچی کے مرکز مقام  صدر میں قائم جہانگیر پارک  کی بات کریں یا پارسیان بیکری کی ،    دونوں ہی کراچی  کو “کراچی” بنانتے ہیں۔ہم عرصے سےانہیں    پارسی کمیونٹی کی پہچان سمجھتے تھے ۔ کیونکہ پارک کے متعلق  تو پتا  تھا کہ جہانگیر پارک  کے لئے زمین سر بہرام جی جہانگیر راج کوٹ والا  نے 1893  میں  بلدیہ کراچی  کو دی تھی۔   جبکہ  پارسیان بیکری  کے بارے میں ہمارا  خیال غلط ثابت ہوا۔ کیونکہ یہ پارسی نہیں بلکہ  بہائی  کمیونٹی سے تعلق   رکھنے والےایرانی نژاد ” اسفیند یار بختیار” نے 1924 میں قائم کی تھی ۔

عوامی بہبود  کی  باتیں اس کمیونٹی کو نمایاں کرتی ہیں کیوں کہ صدی پرانے اس  پارک میں آج بھی مقامی آبادی اپنی تھکن  دورکرتی ہے ۔

 اس کمیونٹی کی تعلیمی خدمات کوئی ایک ہوں تو گنوائیں بھی۔ والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کا بیٹا ، بی وی ایس میں ہو تو بیٹی ماما پارسی سے پڑھ کر نکلے، ڈاو یونی ورسٹی یا این ای ڈی یونی ورسٹی پہنچے ۔ ساتھ ہی پارسی اسنٹی ٹیوٹ  بھی کراچی کے بیٹوں کو  تکنیکل  مدد فراہم  کرتا ہے۔  صدی پرانی ان تعلیمی  اداروں نے  بہتر ، معیاری اور سستی  تعلیم کو فروغ دیا  ہے۔ جہاں ان اسکولوں کا اچھا تعلیمی نصاب انہیں دیگرتعلیمی اداروں سے ممتاز کرتا ہے وہیں  فروفیشنل   تعلیمی ادارے  اچھے ڈاکٹرز ، انجئینرز اور   بہتر پروفیشنلز پیدا کر رہے ہیں ۔

صحت مند کراچی کی فکر میں اس کمیونٹی کے کارناموں کی شروعات یقینا ً لیڈی ڈیفرن اورپارسی ہسپتال کے ساتھ جمشید نسروان جی ڈسپنسری اورگل بائی میٹرنٹی ہوم سے ہوئیں۔حالیہ دہائیوں میں کمیونٹی کے فلاحی کاموں کا یہ سلسلہ سست ضرور ہوا ہے لیکن آج بھی SIUT ہو یا انکل سریا ہسپتال ، عام آدمی ان ہسپتالوں سے صحت کی سہولیات حاصل کر رہا ہے۔

پارسی لوگوں کا طرز زندگی سادگی بھرا ،گجراتی انداز ہے۔ بہت کھلے ذہن کے ماڈرن ،تعلیم یافتہ مگر کچھ چھپے چھپے سے انداز رکھتے ہیں ۔اپنی کمیونٹی کے ساتھ اپنی ہی کالونیوں میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ جیسے پارسی کالونی ، صدر ،گارڈن اور پاکستان چوک ۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *