میں تھرکے ریگستان کا باسی ہوں۔
یہاں گرمی کی حدت و خشک سالی، انسان اور جانور، دونوں کو ہی پیاس سے ہلکان اور بھوک سے بے حال کر دیتی ہے۔
قدرتی آفتیں بھی جیسے تھر کو اپناگھر ہی سمجھتی ہیں۔ کبھی یہاں قحط موت کا رقص کرے ، کبھی زلزلے جان و مال کو ملیا میٹ تو کبھی سیلاب زندگیاں چھین کے بہا لے جائے۔۔۔ جیسے آج کل۔
میرے تھر کی پیاسی دھرتی سہی مگر محبت، امن، اور ہم آہنگی سے ضرور سیراب ہے۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ میلوں پر محیط صحرا میں ایک ایسی جگہ بھی ہے جہاں انسان ہو حیوان یا چرند پرند سب کو مانی کھادو یعنی کھانا پینا ملتا ہے؟
ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر مٹھی سے پچیس منٹ کی دوری پر اسلام کوٹ کئی دہایئوں سے ایک ہندو آشرم کا مرکز ہے۔
یہ سنت نینورام کا آشرم ہے۔ یہاں ذات پات ، نسل و مذہب نہیں بلکہ انسانیت کا بو ل با لا ہے۔
شاہ عبدلالطیف بھٹائی، سامی پورن اور بلھے شاہ کے صوفیانہ کلام کے شیدائی نینو رام بھی انسانیت اور مذ ہبی ہم آہنگی کے پیروکار تھے۔ جبکہ جانوروں سے بھی محبت مثالی تھی۔
یہ آشرم ان کے انسان دوستی کے پیٖغام کا آج بھی عملی ثبوت ہے۔
اس بار جب آشرم پہنچا تو ہمارے ہندو میلے کا آغاز بھجن سے ہو چکا تھا۔ یہ بھجن کوئی ہندو نہیں بلکہ ایک مسلما ن فنکارمراد فقیر پیش کرتا ہے۔
آپ کو جان کر خوشگوار حیرت تو ضرور ہونی چاہیے کہ سنت نینورام کو شرانجلی پیش کرنے کے لئے میلے میں بھجن کی شرعات اسی مسلمان فنکار نے آج سے اننچاس سال پہلے شروع کی۔
مراد بھی انسانیت کو اپنا مذہب گردانتا ہے۔ وہ اس بھجن کو وہاں آنے والے ہندو دوستوں کی سیوا کہتا ہے۔
یہاں مندر کی گھنٹیاں مذہبی اور ثقافتی تہواروں کے لئے یکساں کانوں میں رس گھولتی ہیں۔
انہی گھنٹیوں کی جھنکار میں سنت نینورام کی برسی پرآشرم تین روز کا میلا لگتا ہے۔
اس موقع پر جہاں دیس پردیس سے عقیدت مند شرکت کرتے ہیں، امن کی چھاوں دینے والا یہ آشرم آنے والوں سے ان کی
ذات، نسل ، امارت اور مذہب نہیں پوچھتا اور سب ہی کویہاں مفت کھانا کھلایا جاتا ہے ۔
اس بار بھی میلے میں ایک وقت میں پانچ سو دیگیں چولہوں پر چڑھی دکھائی دیں اورامیر ،غریب، مسکین، یتیم ،مزدور سب تین دن تک پیٹ کی آگ بجھاتے رہے۔ باہمی محبت کی یہ مثال نینورام آشرم میں سالوں سے جاری ہے ۔
میلے کے دنوں کے علاوہ بھی روانہ کے بنیاد پر آٹھ سو سے ہزار لوگوں کو کھانا کھلا یا جاتا ہے۔ یہ آشرم کی برسوں پرانی روایت ہے
یہ آشرم سامی پورن بھارتی آشرم کے نام سے جانا جاتا تھا۔
پھر نینورام نے بھی سامی پورن کے ساتھ آشرم کو اپنا آستان بنا تے ہوئے روحانیت کے سفر کا آغاز کیا۔ سنت نے تین اصول ا پنائے، انسانوں کی خدمت، جانوروں کو چارہ، اور پرندوں کو دانا دینا۔
جب بھی آتا ہوں مانو دل کا میل اتر جا تا ہے ۔
اس میلے میں لگنے والے خون کے کیمپ میں مسلمان اور ہندو ایک دوسرے کوخون کا عطیہ دیتے نظرآئے۔ اس آشرم نے اسلام کوٹ کے تمام باسیوں کو اپنی آغوش میں لے رکھا ہے۔
آشرم کے احاطے میں ایک جانب دیکھا تو گئو شالا نظر آیا۔ یہاں شہر بھر کے جانوروں کو مفت پانی پلانے اور چارے کا انتظام نظر آیا۔ پوچھنے پر پتا چلا یہ آشرم صرف انسانوں کی بھوک نہیں مٹاتا بلکہ یہاں پرندوں اور جانوروں کے لیے بھی پانی اور کھانا رکھا جاتا ہے۔
ان کی دیکھ بھال اور چارے کا تمام بندوبست عقیدت مند بڑی محبت سے خودکرتے ہیں۔
مجھے یہ جان کر خوشگوار احساس ہوا کہ آشرم کی انتظامیہ کے ساتھ ساتھ عقیدت مند بھی اس بات کی پرواہ نہیں کرتے کہ یہ مویشی ہندوؤں کے ہیں یا پھر مسلمانوں کے ۔
اسلام کوٹ میرا فخر اور مان ہے۔ یہاں کےمکین اپنے مذہب کو مانتے ہیں اور دوسروں کے حق کو تسلیم کرتے ہیں۔