شہر کے پلو ں کے نیچے کپڑے دھوتی ، جھگیوں میں کھانا پکاتی ، ان خواتین کا تعلق ہے ،پاکستان کے سب سے زیادہ نظر اندازکیے جانے والی برادری سے۔ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والی باگڑی برادری سندھ سمیت پاکستان کے ہر گوشے میں ہمیں دکھائی دیتے ہیں۔ ان کو خانہ بدوش کہیں یا پھر باگڑی ،،ان کا رہن سہن ، کھانا پینا اور ثقافت پاکستان میں بسنے والے دیگر برادریوں سے یکسر مختلف ہے۔
لیکن جب بات آتی ہے مسلمان بھائیوں سے محبت کی، تو یہ آگے آگے نظر آتے ہیں۔ ماہِ محرم میں جب مسلمان شہدائے کربلا کا سوگ تازہ کرتے ہیں تو اس وقت باگڑی برادری شانہ بشانہ کھڑے ہوتے ہیں۔ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والی یہ کمیونٹی اپنے گھروں میں علم پاک بلند کر کے مذہبی ہم آہنگی کی مَثال پیش کرتی ہے۔ حیدرآباد کے علاقے حسین آباد میں بسنے والے باگڑی برادری ہر سال محرم الحرام کے مہینوں میں اپنے گھروں میں علم چڑھانے کے ساتھ ساتھ لنگر ، نیاز اور سبیلوں کا بھی اہتمام کرتے ہیں۔
اپنائیت اور خلوص کے باوجود باگڑی برادری کو پاکستانی معاشرے میں باگڑی برادری کو کم ذات اوربھکاری سمجھا جاتا ہے جس کے برعکس خانہ بدوش مقامات بدلنے اور ہجرت کرتے رہنے کے ساتھ ساتھ اپنے خاندان اور بچوں کا پیٹ محنت سے پالتے ہیں ۔ صدیوں سے سخت محنت اور مشقت کرنے کے باوجود ان کے حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ، ان کے حالات آج بھی کسمپری میں ہی ہیں ۔
ایک سروےکے مطابق باگڑی برادری میں بیروزگاری اور مالی پریشانی کی وجہ سے تعلیم کی شرح ۱۰ فعصد سے کم ہے ۔ خانہ بدوشوں کے مطابق لوگ انکے مخصوص لباس اور زبان کی وجہ سے عجیب نظروں سے دیکھتے ہیں۔ اگر یہ کہیں کام کرنے جاتے ہیں تو وہاں لوگوں کا طرز عمل اچھوتوں جیسا ہوتا ہے۔انہیں کھانے پینے کے برتن دینے پر ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا جاتا توکہیں برتن ہی الگ کر دیے جاتے ہیں۔ باگڑی برادری کے افراد زیادہ تر کھیتی باڑی ، اور سندھ اور اندرونی سندھ میں زمیندار کے پاس کام کرتے ہیں یا پھر سبزی و پھل کی خرید و فروخت اور ریڑھی لگاکر اپنا گذر سفر کرتے ہیں۔ جن زمینداروں کے باغات اور کھیتوں کھلیانوں کو اپنے خون پسینے سے سینجتے ہیں، وہ انہیں منافع نہیں دیتے بلکہ ان غریبوں پر قرضہ نکال کر انہیں دھمکاتے ہیں ۔ کئی جگہوں پر انہیں جنسی زیادتی کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے تو کہیں جبرناً مذہب تبدیل کروانے کے واقعات بھی سامنے آتے ہیں ۔
ان خانہ بدوشوں کو حکومت کی طرف سے کوئی بنیادی سہولت مثلا ً پینے کا صاف پانی، علاج معالجہ کی سہولیات، یا تعلیم نہیں ملتی۔ زندگی کی بنیادی سہولتوں اور حقوق کو ترستے یہ افراد احساسِ محرومی کا شکارہوچکے ہیں۔ حیدرآباد م کے باسی بزرگ لچمن داس کہتے ہیں کہ دنیا میں کئی چھوٹی قومیں موجود ہے مگر ہم اپنے آپ کو معاشرے میں کمتر محسوس کرتے ہیں۔ ہماری برادری کے لیے کوئی بھی آواز اٹھانے والا نہیں۔
کچے گھروں ، جھونپڑیوں یا پھر کھلے آسمان کو اووڑھ کر سونے والے یہ افراد ہیں تو ہندو لیکن ان کے دلوں میں دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے ہم وطنوں کے لیے بڑی پکی محبت پائی جاتی ہے ۔ ان کا رہن سہن اور ثقافت ہندو مذہب کے مطابق ہیں اور اپنے تمام تہوار بھی مذہبی جوش و خروش سے مناتے ہیں مگر اپنے آس پاس آباد مسلمانوں کی خوشیوں اور پریشانیوں کا بھی اتنا ہی خیال رکھتے ہیں۔ افسوس صد افسوس ! پاکستانیوں سے محبت کرنے والا یہ محروم ترین طبقہ، آج تعلیم، روزگار اور صحت اور صفائی کے بنیادی سہولتوں کے لیے حکومت اور مخیر حضرات کی راہ تک رہا ہے ۔