بلاشبہ انسانی وسائل اقوام عالم کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ایسے ممالک جہاں نوجوان آبادی کا تناسب نسبتاً زیادہ ہوتا ہے۔ وہ قدرتی طور پر انسانی وسائل کے میدان میں زیادہ استعداد کے حامل قرار پاتے ہیں۔ یو این ڈی پی کی مذکورہ رپورٹ، جو گزشتہ سال مئی میں جاری کی گئی ہے، میں بہت دلچسپ اعداد و شمار سامنے آئے ہیں، جس کا جائزہ اس اظہاریہ میں شامل کیا جارہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان کے نوجوانوں میں پچاس فیصد مرد اور پچاس فیصد خواتین ہیں جبکہ نوجوانوں کی ایک تہائی، یعنی تینتیس فیصد شادی شدہ جبکہ سڑسٹھ فیصد، غیر شادی شدہ ہے۔ نوجوانوں کی پچپن فیصد آبادی پنجاب، تیئس فیصد سندھ، چودہ فیصد خیبر پختونخوا، چار فیصد بلوچستان جبکہ چار فیصد آزاد کشمیر، گلگت بلتستان اور سابقہ فاٹا کے علاقوں میں ہے۔
پاکستان کی چونسٹھ فیصد آبادی شہری علاقوں جبکہ چھتیس فیصد دیہی علاقوں میں رہتی ہے۔ پاکستان کے نوجوانوں کی سینتیس فیصد آبادی کی مادری زبان پنجابی، پندرہ فیصد کی اردو، تیرہ فیصد کی پشتو، تیرہ فیصد کی سرائیکی، دس فیصد کی سندھی، چار فیصد کی بلوچی جبکہ آٹھ فیصد کی دیگر متفرق ہیں۔
تعلیم و خواندگی کے اعتبار سے تقریباً ستر فیصد نوجوان خواندہ جبکہ تیس فیصد ناخواندہ ہیں، سولہ فیصد نوجوانوں کی تعلیم ایک سے پانچ جماعت تک ہے، چالیس فیصد نے چھ سے دس جماعت تک تعلیم حاصل کی ہوئی ہے، نو فیصد کی تعلیم گیارہویں سے بارہویں جماعت تک کی ہے جبکہ چھ فیصد نوجوان بارہویں جماعت سے زائد تعلیم کے حامل ہیں جس میں گریجویشن اور اس سے زائد تعلیمی قابلیت بھی شامل ہے۔ ملک کے چھ فیصد نوجوانوں کو کتب خانوں تک رسائی حاصل ہے جبکہ ٩٤ فیصد کو یہ سہولت حاصل نہیں۔
پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے جس کی ترقی کی رفتار اس کے نوجوانوں کی درست سمت میں رہنمائی اور پیشرفت سے ہی مشروط ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ ہمارے ملک کے نوجوانوں میں شعور اور نظم و ضبط کا معیار بہتر بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے تعلیمی نصاب اور تعلیمی اداروں میں اس نوعیت کی تربیت پر بہت زیادہ توجہ نہیں دی جاسکی۔ اس حوالے سے فوری حکومتی اقدامات نہایت ضروری ہیں۔
پاکستان کے نوجوانوں کی چالیس فیصد تعداد برسر روزگار ہے جس میں بتیس فیصد مرد اور آٹھ فیصد خواتین شامل ہیں، چار فیصد نوجوان بیروزگار اور روزگار کی تلاش میں ہیں جبکہ چھپن فیصد جس میں چالیس فیصد خواتین اور سولہ فیصد مرد شامل ہیں روزگار کے متلاشی نہیں ہیں۔ برسر روزگار نہ ہونے والے باقی ماندہ ساٹھ فیصد نوجوانوں میں سے چودہ فیصد بلا معاوضہ کارکن ہیں جبکہ دس فیصد گاہے بگاہے یا جزوقتی طور پر کام کرتے ہیں جبکہ آٹھ فیصد نوجوان اپنے طور پر کاروبار سے منسلک ہیں۔
ملک کے صرف سات فیصد نوجوانوں کو کھیلوں کی سہولیات میسر ہیں جبکہ ٩٣ فیصد کے پاس یہ سہولت موجود نہیں، ملک کے پندرہ فیصد نوجوانوں کو تیز رفتار انٹرنیٹ تک رسائی حاصل ہے جبکہ پچاسی فیصد کو یہ سہولت میسر نہیں ہے، حالانکہ باون فیصد نوجوانوں کے پاس موبائل فون کی ملکیت موجود ہے، ملک کے ایک فیصد نوجوانوں کے پاس کار، بارہ فیصد کے پاس موٹرسائیکل، دس فیصد کے پاس سائیکل جبکہ ستتر فیصد کے پاس ذاتی سواری موجود نہیں ہے۔
اس جائزہ رپورٹ کے مطابق سیاسی اور سماجی اعتبار سے پاکستانی نوجوان بہت پُرعزم نظر آتے ہیں۔ ملک کے اَسّی فیصد نوجوان انتخابات میں ووٹ کاسٹ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جبکہ بیس فیصد کی اس میں دلچسپی نہیں۔ پاکستان کے ستر فیصد نوجوان اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے ہیں، پندرہ فیصد خود کو غیر محفوظ جبکہ باقی پندرہ فیصد کی اس بارے میں کوئی حتمی رائے نہیں۔ ایک نہایت خوش آئندبات یہ سامنے آئی کہ ملک کے نواسی فیصد نوجوان اپنے حالاتِ زندگی سے خوش ہیں، صرف تین فیصد نوجوان ناخوش جبکہ آٹھ فیصد کی اس بارے میں کوئی واضح رائے نہیں پائی گئی۔
ملک کے اڑتیس فیصد نوجوان کھیلوں میں باقاعدگی سے حصہ لیتے ہیں، تین فیصد کبھی کبھی جبکہ انسٹھ فیصد نوجوان اکثر کھیلوں میں حصہ نہیں لیتے۔ ملک کے دو تہائی سے زائد یعنی سڑسٹھ فیصد نوجوانوں کا خیال ہے کہ ان کا معیار زندگی ان کے والدین سے بہتر ہے۔ اٹھارہ فیصد کا خیال ہے کہ ان کے والدین جیسا ہی ہے جبکہ پندرہ فیصد کا ماننا ہے کہ ان کا معیارِ زندگی ان کے والدین سے کمتر ہے۔ نوجوانوں کی تقریباً نصف تعداد یعنی اڑتالیس فیصد کا ماننا ہے کہ پاکستان کا مستقبل تابناک ہے، سولہ فیصد سمجھتے ہیں کہ اس میں زیادہ تبدیلی نہیں آئے گی جبکہ چھتیس فیصد نوجوان بہتر مستقبل کے بارے میں زیادہ پُر امید نہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارے یو این ڈی پی کی مرتب کردہ اس نہایت اہم و دلچسپ حالیہ جائزہ رپورٹ کو دیکھ کر ہم بآسانی ملک کے لئے مستقبل کی منصوبہ بندی کو بہتر بنا سکتے ہیں، جہاں ایک طرف ہم قدرتی طور پر نوجوان آبادی پر مبنی کارآمد انسانی وسائل کی دولت سے مالامال ہیں تو دوسری جانب سب سے زیادہ خوش آئند امر یہ بھی سامنے آیا ہے کہ ملک کے معروضی حالات سے متعلق، جس میں ہمیں اقتصادی چیلنجز کا پہلے سے کہیں زیادہ شدت سے سامنا ہے، ہمارے نوجوان پُر امید وپُر جوش اور اپنی زندگی سے بہت خوش ہیں اور ان کے یہ مثبت فکری اوصاف ملک کے استحکام کے ساتھ ساتھ اس کی تعمیر وترقی کے لئے بہت فرحت انگیز احساس فراہم کرتے ہیں۔
ملک میں انتخابات کے بعد قائم ہونے والی نئی حکومت کی اولین ترجیحات میں جہاں ایک جانب گردشی قرضوں کے گرداب پر مبنی معاشی مشکلات سے باہر نکلنا شامل ہے وہاں اصلاحات پر مبنی مستقبل کی بہتر منصوبہ بندی بھی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ حکومت کو نوجوانوں کو پہلے سے بہتر اور معیاری تعلیمی مواقع فراہم کرنا ہوںگے اور پہلے سے بہتر صحت عامہ کی سہولیات عوام کی دسترس میں لانی ہوںگی۔
ملک میں موبائل فون اوربالخصوص انٹرنیٹ سروس کا تیزی سے پھیلاؤ بیک وقت ایک بہت بڑا موقع فراہم کرچکا ہے جس کے تعمیری استعمال سے ہم تعلیم اور سماجی شعور کی ترویج کو یقینی بنا کر اپنے موجودہ روائتی تعلیمی نظام کی کمزوریوں کو دور کرسکتے ہیں، لیکن دوسری جانب عمومی طور پر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ انٹرنیٹ کے تیز رفتار پھیلا ئواور ایک ایسی نسل کے نوجوانوں تک اس کی بلا روک ٹوک رسائی کہ جن کے والدین کی اکثریت رموزِ انٹرنیٹ سے نابلد اور اس پر آسانی سے دستیاب ہر قسم کے مواد اور مواقع سے جڑے ممکنہ نقصانات سے بہت زیادہ آگاہ نہیں تو اس سے یہ خدشہ بھی ہمارے سروں پر منڈلاتا رہتا ہے کہ کہیں ہمارے نوجوانوں کا وقت اور توانائی کسی ایسی سمت میں نہ ضائع ہو جو ان کے اخلاق اور کردار سازی کے لئے مضر ہو۔
پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے جس کی ترقی کی رفتار اس کے نوجوانوں کی درست سمت میں رہنمائی اور پیشرفت سے ہی مشروط ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ ہمارے ملک کے نوجوانوں میں شعور اور نظم و ضبط کا معیار بہتر بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے تعلیمی نصاب اور تعلیمی اداروں میں اس نوعیت کی تربیت پر بہت زیادہ توجہ نہیں دی جاسکی۔ اس حوالے سے فوری حکومتی اقدامات نہایت ضروری ہیں۔ بنیادی تعلیمی نصاب میں شہریت، ابتدائی طبی امداد اور شہری دفاع جیسے مضامین کو لازمی شامل کیا جانا چاہئے اور جو نوجوان اس تربیت سے محروم ہیں ان کو انٹرنیٹ اور موبائل فون کی مدد سے مناسب آگاہی فراہم کی جاسکتی ہے۔ ایک ایسا ملک جہاںہسپتال اور میڈیکل ایمرجنسی میں ایمبولینس کی سہولیات بہت مؤثر طور پر دستیاب نہیں، وہاں ہر نوجوان کو ابتدائی طبی امداد اور حادثات کی صورت میں ذمہ دار اور کارآمد شہری کے طور پر ہنگامی اقدامات میں تعاون سمیت بنیادی احتیاطی تدابیر کی لازمی آگاہی ضرور فراہم ہونی چاہئے جس کے نتیجے میں ایسی کسی صورتحال میں قیمتی انسانی جانوں کو بچایا جاسکے گا اور اس کے لئے بھی انٹرنیٹ ایک نہایت مؤثر کردار ادا کرسکتا ہے۔
پاکستان کو اپنے مخصوص جغرافیائی محل وقوع کے باعث بین الاقوامی چیلنجز کا سامنا بھی رہتا ہے اور دنیا میں انٹرنیٹ کے پھیلائو کے بعد اب انتہائی متحرک سوشل میڈیا کے دور کا سامنا ہے۔ آج دنیا سمٹ کر ہمارے ہاتھوں میں آچکی ہے، ہمیں نہایت سنجیدگی سے سوچنا ہوگا کہ جدید ٹیکنالوجی کے اس سیلاب میں معلومات کا جو ٹھاٹھیں مارتا ہوا طوفان ہر جانب موجود ہے، اس کے درمیان کیا ہم نے ایسا قابل بھروسہ بندوبست کرلیا ہے کہ ہمارا نوجوان ہماری بنیادی نظریاتی اساس یعنی نظریہ پاکستان کی حفاظت کرنے کے لئے علمی اور عقلی طور پر دنیا کا سامنا کرنے کے لئے مؤثر طور پر تیارر ہے۔۔۔اس موضوع پر بہت کچھ لکھنا اور عملی طور پر کرنا باقی ہے۔ اور اس حوالے سے فوری اقدامات کی ضرورتِ وقت کی پکار ہے۔
نوجوانوں کی تعداد زیادہ نوکریاں کم
پاکستان دنیا کا چھٹا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے جس کی مجموعی آبادی 21 کروڑ سے زائد ہے اور نوجوان آبادی کا ایک بڑا حصہ ہیں۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے برائے تعمیر و ترقی، یو این ڈی پی کے مطابق ملک میں مجموعی آبادی کا کل 64 فیصد حصہ 30 برس سے کم عمر نوجوانوں پر مشتمل ہے جبکہ ان میں 29 فیصد آبادی 15 سے 29 برس کے نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ نوجوانوں پر مشتمل اتنی بڑی آبادی رکھنے والے ملک میں 29 فیصد نوجوان غیر تعلیم یافتہ ہیں جبکہ صرف چھ فیصد نوجوان 12 تعلیمی سال سے آگے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔
نوجوانوں کا بڑا مسئلہ، تعلیم اور بیروزگاری
پاکستان میں نوجوانوں کے سب سے بڑے مسائل تعلیم اور بے روزگاری ہیں۔ ماہرین کے مطابق کورونا کی وبا نے نوجوانوں کے ان مسائل میں مزید اضافہ کیا ہے۔ ماہر معاشیات مہروز مظہر نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں بتایا کہ اس بات کی تصدیق ملک کے شماریاتی ادارے کی جاری کردہ رپورٹ سے بھی ہوتی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ملک میں بیروزگاری کی شرح میں 22 فیصد اضافہ ہوا ہے: ’’کورونا وباء سے قبل ملک میں روزگار سے وابستہ افراد کی تعداد تقریباً پانچ کروڑ 57 لاکھ تھی، تاہم وباء کے باعث لگنے والے لاک ڈاؤن کے باعث برسر روزگار افراد کی تعداد تقریباً تین کروڑ 50 لاکھ رہ گئی ہے۔ ناصرف یہ بلکہ لاک ڈاؤن کے دوران 37 فیصد یعنی تقریباً دو کروڑ چھ لاکھ افراد بے روز گار بھی ہوئے ہیں جن میں بڑی تعداد نوجوانوں کی ہے۔‘‘
گزرشتہ حکومت نے اپنے دورِ اقتدار کے دوران ایک کروڑ نوکریاں پیدا کرنے جبکہ چار لاکھ افراد کو ہنرمند تربیت دینے کا بھی اعلان کیا تھا جس کے تحت ان کی حکومت نے اکتوبر 2019 کو ’’کامیاب جوان پروگرام‘‘ کا افتتاح کیا۔ اس پروگرام کے تحت 10 ہزار روپے سے ڈھائی لاکھ روپے تک کے قرض آسان قسطوں پر دیے جا رہے ہیں۔ ان قرضوں پر سود کی شرح بھی تین اور چار فیصد رکھی گئی ہے۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی عثمان ڈار کے مطابق مئی 2021 تک 10 ہزار افراد کو کامیاب جوان پروگرام کے تحت ساڑھے آٹھ ارب روپے جاری کیے جا چکے ہیں جبکہ وفاقی حکومت نے سندھ کے نوجوانوں کے لیے کامیاب جوان پروگرام کے تحت 10 ارب روپے جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کے مطابق مئی 2021 تک حکومت کامیاب جوان پروگرام کے تحت 1.3 ارب روپے قرض اور 1.4 ارب روپے کی رقم سکل سکالرشپ پروگرام کے تحت سندھ کے نواجوانوں میں تقسیم کر چکی ہے۔
ماہر ین کے مطابق نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد اس وقت خصوصی تکنیکی اور پیشہ ورانہ تعلیم و تربیت سے محروم ہے جس کے باعث ان میں مایوسی بڑھتی جا رہی ہے، ’’ہم اس وقت ایسے دور سے گزر رہے ہیں جس میں شدید سماجی بے چینی کے علاوہ انتہائی تیزی سے معاشی اور سماجی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ مالی وسائل میں کمی کے باعث نوجوانوں میں شدید مایوسی اور احساس محرومی جنم لے رہا ہے۔ اکثر نوجوانوں کے پاس اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے مواقع نہیں اور جن کے پاس ہیں وہ مناسب نوکریوں اور کاروباری مواقعوں کی کمی سے پریشان ہیں۔‘