حرشہ دولت
میں کراچی میں پیدا ہوئی اور ایک ہندو گھرانے میں تربیت پائی۔ اسکول سے لے کر کالج تک میرے ہندو دوستوں کے ساتھ ساتھ کئی عیسائی اور مسلمان دوست بھی رہے لیکن آج کا دن میرے لیے بہت الگ سا تھا۔
آج پہلی دفعہ ایسا ہوا کہ کالج میں داخل ہوتے ہوئے کبھی مجھے خیال آتا کہ میری چھوٹی آستین والی قمیض موقع کی مناسبت سے ہے بھی کہ نہیں تو کبھی میں اپنا دوپٹہ درست کر تے ہوئے اپنی کنفیوژن چھپاتی۔ پہلی مرتبہ قوالی کی محفل میں جانا میری توقع سے کہیں زیادہ مشکل ثابت ہو رہا تھا کیونکہ ایک ہندو ہونے کے ناطے میں نے نہ کبھی قوالی کی تقریبات میں میزبانی کی اور نہ ہی کبھی قوالی کی محفل میں حصہ لیا۔ لیکن جب میرے کالج نے قوالی کا پروگرام منعقد کیا تو میرا دل چاہا کہ میں اپنی دوستوں کے ساتھ اس کا تجربہ ضرورکروں۔
بڑے سے ہال میں داخل ہوتےہی مجھے لگا کہ میں نے کسی اور دنیا میں قدم رکھ دیا۔ لوگوں کی بھیڑ اور سینکڑوں طلباء کے شور میں مجھے شرکاء کے ہاتھ ہی ہاتھ نظر آ رہے تھے، کچھ جوان تالیاں بجا رہے تھے، کچھ قوالی کی لے پر جھوم رہے تھے تو کوئی دوستوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کی کوشش میں لگا تھا۔ جہاں متحرک روشنیوں نے اسٹیج کو ڈھانپ رکھا تھا ، وہیں ڈھول اور ہامونیم بجاتے قوال اپنا سر دھن رہے تھے۔ جوش و خروش سے رقص کرتے ہوئے دوستوں کو دیکھ کر مجھ میں بھی اس تفریح میں شامل ہونے کا جنون پیدا ہوا۔ پہلے تو مجھے سمجھ نہیں آئی کہ وہ لوگ اتنے پرجوش انداز میں رقص کیوں کر رہے ہیں، لیکن جب میری سہیلیوں نے “کالی کالی زلفوں کے پھندے نا ڈالو..” گانا شروع کیا تو میں نے فاطمہ کی طرف دیکھا اور تالیاں بجاتے ہوئے گانا شروع کر دیاکیونکہ یہ واحد گانا تھا جو میں نے سنا ہوا تھا۔۔ اور پھر صوفیانہ قوالیوں کا سلسلہ شروع ہوا جو ” میرے لیے موسیقی کا بالکل نیا انداز تھا۔
برِصغیر میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے بے شمار تفریحات اور ذوقیات جو صدیوں سے چلے آرہے ہیں،اب بھی رائج ہیں۔ انہی میں سے ایک قوالی بھی ہے۔ آج بھی عرس ہوں یا قوالی کا کوئی اجتماع ۔۔، ان میں ہندو اور مسلمان ذوق و شوق سے شریک ہوتے ہیں۔ ہندو بھجن کے راگ ہوں یا مسلمانوں کی قوالی کی دھنیں ،آج بہت سے جنوبی ایشیا کے ہندو، جین، عیسائی، بدھ مت اور سکھ ان عقیدت مند گیتوں اور ان کی شاعری کو سنتے اور ان سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اسی صوفیانہ شاعری میں انہیں اپنی ذات کی حقیقیت اور اس کائنات کے پنہاں راز آشکار ہوتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ سننے والے نہ تو دوسرے مذہب کو مانتے ہوں اور نہ ہی انکی مذہبی و ثقافتی تعلیمات سے ہم آہنگ ہوں، پھر بھی وہ روایتی قوالی سے لطف اٹھاتے ہیں اور ان کی آواز قوالوں کے ساتھ گونجتی ہے ۔ اکثر قوالی سننے والے موسیقی کی دنیا کے اس انوکھے پن میں سکون بھی تلاش کرلیتے ہیں۔
میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ایک ایسا پروگرام جس کی مجھے توقع تھی کہ دو منٹ میں مجھے بور کر دے گا، اس نے مجھے دو کھنٹے تک جھومنے، رقص کرنے میں مصروف رکھا۔ تھکن کے باوجود میرے چہرے پر سجی مسکراہٹ بتا رہی تھی کہ لوگ قوالیوں میں جانے کے کیوں منتظر رہتے ہیں۔ اب میں یہ کہہ سکتی ہوں کہ ہندووں اور مسلمانوں کی مشترکہ تہذیب کا سب سے بھرپور اظہار ان کی موسیقی، مصوری اور فن تعمیر کے ذریعے عوام میں پھیلا ہے جو آج بھی نظر آتا ہے۔