تھنک ٹینک ؛ عمران اسلم

لیاری کی دیوارِ امن
November 22, 2022
وادی کیلاش امن و محبت کا گہوراہ
December 14, 2022

تھنک ٹینک ؛ عمران اسلم

     غلام مصطفیٰ 

 

وہ میرے مینٹور تھے ، میرے استاد تھے ، مربی تھے ، جس نے مجھے زندگی میں ہاتھ پکڑ کر تیز رفتار میڈیا کی دوڑ میں پاؤں پاؤں چلنا سکھایا ۔۔۔ اچھا سکرپٹ کیسے لکھنا ہے ۔۔۔۔ منفرد اسٹوری کیسے کرنی ہے ۔۔۔۔ آئیڈیاز سے اسٹوری کیسے ڈویلپ کرنی ہے سب کچھ تو سکھایا ۔۔۔۔ اور اس سکھا نے کیلئے کوئی باقائدہ کلاس نہیں ہوتی تھی ، بس چلتے پھرتے علم کے موتی بکھیرتے رہتے تھے ۔ جہاں سے گذرتے سوچنے اور سمجھنے کیلئے سامان فراہم ہو جاتا ۔ وہ اکثرسگریٹ پینے کے لئے جیو آفس سے باہر نکلتے تو ہم ان کے پیچھے پیچھے چل پڑتے اور باتوں باتوں میں انکی سوچ کا دریا بہہ نکلتااوردسیوں اسٹوری آئیڈیاز ہماری جھولی میں پڑے ہوتے اور ہم یہ سوچتے ہی رہ جاتے کہ کونسی اسٹوری کریں اور کونسی چھوڑیں ۔ کئی بار ایسا ہوتا کہ ہم کئی آئیڈیاز بھول جاتے لیکن انہیں یاد ہوتے ، ملنے پر پوچھنے کہ اس اسٹوری کا کیا کیا آپ نے؟ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ وہ فیض بانٹتے تھے ، سوچ کا ، غور و فکر کا ، آئیڈیاز کا ، میڈیا کے استحکام کا ،  میڈیا  انڈ سٹری کو آگے لے جانے کا ۔ سچ میں وہ ایک چلتا پھرتا تھنک ٹینک تھے ۔۔ جیو تھنک ٹینک !

 

ان سے ہماری شناسائی این ٹی ایم کے زمانے سے تھی کہ جب کبھی کبھار وہ پی ای سی ایچ ایس میں رازی روڈ پر واقع این ٹی ایم کے دفتر تشریف لاتے تھے ۔ یہی وہ زمانہ تھا جب میر صاحب ایک ٹی وی چینل کا سوچ رہے تھے ۔

 

پھر جیسے ہی این ٹی ایم ختم ہوا ،ہم پرنٹ میڈیا کی طرف پلٹ گئے لیکن یہ رابطے برقرار رہے ۔ اور پھر وہ دن بھی آیا جب جیو کیلئے انٹرویو کال آگئی ۔جیو شروع ہونے سے کوئی آٹھ ماہ پہلےیہ انٹرویو کیمرے پر ریکارڈ ہوئے ۔ عمران اسلم،  میر ابراہیم ، اظہر عباس، استاد محترم ناصر بیگ چغتائی،  عبدالروف سمیت  چھ لوگوں کا پینل سامنے بیٹھا ہے جو وقت کا بھاؤ بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ، وہ انٹرویو لے رہے ہیں اور ہم جیسے صحافت کی پگڈنڈی پہ قدم رکھنے والے نئے نئے بچے انکے سامنے کسی اسکول کے اسٹوڈنٹ کی طرح بیٹھے ہیں ۔ ٹی وی پروڈکشن کے ٹیکنیکل سوالات بھی ہوتے ہیں  تو رپورٹر کی سورسز پر بھی بات ہوتی ہے ، پچھلے کام کا بھی جائزہ لیا جاتا ہے ۔ انٹرویو آیا گیا لیکن پھر ایک دن ریجنٹ پلازہ کی ایک شام غزل میں اظہر عباس اور ان سے ملاقات ہوتی ہے اور دوسرے دن اگریمنٹ سائن کرنے کیلئے بلالیا جاتا ہے اور پھر آواری ٹاور میں ایک ڈیڑھ ماہ ٹریننگ میں ساتھ گزرتا ہے ۔ جیو کی پوری لیڈ ٹیم بھی ہم جیسوں کے ساتھ کلاس روم میں بیٹھتی ہے وہ دراصل ہمیں سکھانے کی کوشش تھی اور پھر آواری ہی میں ایک دن اسکرین پر جیو کا لوگو چلنا شروع ہوتا ہے اور سب کی آنکھوں میں خوشیوں کے آنسوں ہوتے ہیں  اور پھر ان سے سیکھنے کا یہ عمل مسلسل ساتھ رہا ۔ آواری ٹاور کی جگہ جنگ بلڈنگ نے لے لی ، کلاس روم کی جگہ جیو کے کوریڈور آگئے اور چلتے پھرتے انکی زبان سے جھڑنے والے سوچ کے موتی،جسے ہم تہی دامن اپنی جھولی میں سمیٹنے کی کوشش کرتے ، مگر یوں گراں قدر موتی ہم جیسے نالائق کہاں سنبھال سکتے تھے ۔۔ کچھ ہاتھ آتے کچھی پھسل کر گر جاتے ۔

 

کبھی کبھی جب وہ سگریٹ پینے کیلئے جا رہے ہوتےتھے میں انکا ہاتھ پکڑ لیتا بلکل ایسے جیسے بچے باپ کا ہاتھ پکڑتے ہیں اور کہتا سر مجھے دو منٹ دے دیں اور پھر انہیں گراونڈ فلور پر آڈیو اسٹوڈیو لے جاتا اور ان سے جیو انوسیٹیگیٹ کی ڈاکومینٹریز کے پرومو کی وائس اور کرنے کی درخواست کرتا ۔ کئی بار پرومو کے اسکرپٹ کی لکھی میری غلطیاں وہ پڑھتے پڑھتے ہی درست کر لیتے ،  مجھے ایسے لگتا اور مجھے یقین ہوتا کہ انکی آواز میرے پرومو کو پر لگا کر ہوا کے دوش پر اڑا لے جائے گی ، پھر اسٹوری کو مقبولیت سے کوئی نہیں روک سکتا اور حقیقیت میں ہوتا بھی ایسے ہی کہ انکی آواز سننے والوں کو اپنے سحر میں جکڑ لیتی ۔ کبھی کبھی میں انہیں ڈھونڈتے ڈھوندتے جیو کی پانچویں منزل پہ انکے روم میں جاتا تو وہ خالی ملتا  تب  میں سمجھ جاتا کہ وہ کہاں ہونگے اور پھر میں میزنانئن فلور کی جانب تیز تیز قدموں سے دوڑ لگا دیتا ، میں سمجھ جاتا کہ وہ اپنے خفیہ روم میں ہونگے جہاں وہ یقینا ً اس وقت کوئی کریٹو کام کررہے ہونگے ، کسی ڈرامے کا سکرپٹ لکھ رہے ہونگے  ۔یوں  میں میزنائن فلور پہنچ جاتا ۔ بغیر کوئی آواز پیدا کئے کمرے میں داخل ہوتا اور ایک گوشے میں بیٹھا رہتا،  وہ جیسے ہی اپنی سوچ سے فارغ ہوتے مجھے دیکھتے اور پوچھتے ہاں بھائی جی ایم کیسے ہو۔

 

جیو کا پریزیڈنٹ ۔۔۔ اتنے ڈھیروں کاموں کی مصروفیت ۔۔۔ لیکن مجھے یہ اعزاز حاصل رہا کہ انکے کمرے میں داخل ہونے پر مجھ پر کبھی کوئی روک ٹوک نہیں رہی ۔ میں سمجھتا ہوں میں جیو میں ان کا اور اظہر عباس کا لاڈلا رپورٹر تھا ۔

 

ایک بار میں جیو کی بلڈنگ سے باہر نکل رہا تھا کے سامنے سے عمران اسلم آتے دکھائی دئے ،  رات کا ٹائم تھا ۔ میں نے سلام کیا ، حال احوال پوچھا اور فرمائش کی کہ سر آئیں نا ں ہمارے ساتھ پٹھان کے ہوٹل پہ چائے پیتے ہیں ۔ کہنے لگے چلیں  اور ہم دی نیوز کے سامنے چائے کے ڈھابے پہ بیٹھ گئے عمران اسلم کو دیکھ کر جیو کے اور ساتھی بھی اس محفل میں شامل ہو گئے  ،۔ دو گھنٹے پر محیط یہ محفل کئی موضوعات کا احاطہ کئے ہوئے تھی ۔ بات چلتے چلتے سیلری میں اضافے پر پہنچی تو کہنے لگے کہ اپنے حقوق کیلئے آواز اٹھایا کریں،  بولا کریں ۔۔۔ پھر خود ہی کہنے لگے کہ آواز نہیں اٹھاؤگے تو میری طرح نقصان میں رہو گے ۔ پھر خود ہی اپنا قصہ سنانے لگے کہ میں دی نیوز میں تھا  جب  جیو کی پلاننگ شروع ہوئی تو مجھے جیو شفٹ کر دیا گیا گیا اور ایک دو سال گزر گئے ۔ سیلری کے حوالے سے نہ کبھی میر صاحب نے پوچھا نہ انکو یاد رہا اور نہ کبھی میں نے ذکر کیا ،  یہاں تک کہ ایک دن ڈائریکٹرز کی میٹنگ میں میر صاحب کو پتہ چلا کہ عمران اسلم تو دی نیوز کی ہی پرانی سیلری پہ کام کر رہے ہیں  تو خود میر شکیل الرحمان بھی حیران رہ گئے کہ آپ نے بتایا کیوں نہیں ۔ کہنے لگے میں نے جواب دیا کہ میں کیا بتاتا ۔ خیر میر صاحب نے وہیں آرڈرز جاری کئے ا ور ان کی تنخواہ جیو کے لیڈنگ اسٹاف کے مطابق بڑھا دی گئی ۔  یہ واقعہ سنانے کے بعد اپنے اسٹاف سے کہنے لگے کہ اپنے حق کیلئے بولا کریں ،آواز اٹھایا کریں، لڑا کریں ۔ میرے سامنے جیو کا صدر اپنے ادارے کے لوگوں کو اپنے لئے لڑنا سکھا رہا تھا ۔

 

انکی زندگی کے کئی پہلو تھے ! منکسر المزاج انسان تھے ،  عاجزی اور انکساری ان کا اوڑھنا بچھونا تھا ، پھل دار درخت ہمیشہ جھکا رہتا ہے اور وہ واقعی شجر سایہ دار اور پھل دار تھے ۔ ایک بار کہنے لگے جی ایم میرا اور فرشتے (بھابی ) کا شناختی کارڈ بنوانا ہے۔ میں نے کہا کہ نادارا میں رش ہوتا ہے،  میں کوئی ٹائم ارینج کرتا ہوں نادرا سے بات کرکے تاکہ آپ کا قیمتی وقت ضائع نہ ہو ۔ ہم نے نادرا کے دفتر میں اپنے ایک مہربان سے بات کی اور ان سے درخواست کی کہ مصروف آدمی ہیں ایسا ٹائم بتا دیں کہ دس پندہ منٹ میں پروسیجر مکمل ہو جائے ۔ ان مہربان نے نادرا کے صوبائی دفتر کو خالی کروالیا صرف عمران صاحب کیلئے ،  اس بات کا عمران صاحب کو پتہ نہیں تھا ۔ میں عمران صاحب اور فرشتے کے ساتھ انکی گاڑی میں نادرا آفس پہنچے ،  ہمارے مہربان نے گیٹ پر ان کا استقبال کیا ، اور اندر لے گئے  تو پوچھنے لگے کیوں پورا دفتر خالی ہے ، صرف اسٹاف کے لوگ نظر آرہے ہیں ۔ بتایا گیا کہ آپکی وجہ سے دفتر خالی کروا کر سسٹم فری رکھے گئے ہیں تاکہ جلدی سے پروسز مکمل ہو اور اور آپ کا وقت ضائع نہ تو   اس بات کا برا منایا اور کہا کہ آپکو ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا ۔ رجسٹریشن کا عمل  مکمل ہوا اور ہم کچھ دیر بعد واپس جیو پہنچ گئے ۔ نادرا میں جن صاحب نے انتظامات  کئے تھے ، پھر جب بھی ملتے ان کا ضرور پوچھتے اور کہتے اعجاز مغل کو سلام کہئے گا ۔ کسی احسان کرنے والے کو ہمیشہ یاد رکھتے تھے ۔

 

پھر ایک دن میں جیو سے کوچ کرکے سما چلا گیا ۔ تو انکی کال آئی ، جی ایم واپس آجاؤ۔ کوئی بات ہے تو مجھے بتاؤ، میں سارے مسئلے حل کرا دیتاہوں لیکن میرا ایک جواب تھا سر میں کمٹمنٹ کر چکا ہوں   تو ناخلف اولاد کو اچھے والد کی طرح کہا کہ اچھا جب واپسی کا موڈ ہو مجھے بتا دینا اور پھر جب سما سے دل بھر گیا تو صرف ایک کال کی کہ سر مجھے واپس آنا ہے اور پھر صبح کا بھولا شام کو گھر واپس آ گیا ۔

 

ایک دن جیو سے نکلتے ہوئے میرا میک بک پرو گن پوائنٹ پر چھن گیا ۔ تو دوسرے دن صبح عمران اسلم ، میر ابراہیم ، اظہر عباس سب میرے پاس میری ڈیسک پر موجود تھے اور میرا حوصلہ بڑھا رہے تھے ۔ ہر نازک موڑ پر رہنمائی ،  ہمت افزائی اور حوصلہ بانٹنے والے اب ہم میں نہیں رہے ۔

 

جیو چھوڑنے کے بعد جیو آفس تو نہیں البتہ گھر پہ آنا جانا لگا رہا  لیکن انکے پیار اور انکی رہنمائی میں کبھی کمی نہیں آئی ۔ جب انہیں بتایا کہ اب میڈیا ڈویلپمنٹ سیکٹر میں کام کررہا ہوں اور لندن کے “انڈکس آن سسنسرشپ” کی جانب سے پریس فریڈم اوارڈ کیلئے انٹری لسٹ میں شامل ہو گیا ہوں تو بہت خوش ہوئے ۔آئی ایف جے ، فریڈم نیٹ ورک کے ساتھ ریسرچ بیسڈ کام سے بہت خوش تھے اور پھر بتایا کہ دنیا بھر میں میڈیا آرگنائیزیشن سے کیسے تعلقات استوار کرنے ہیں ۔

 

غرض ان سے ملاقات کبھی رائیگاں نہیں گئی، ہمیشہ جھولی بھر کے ہی واپس لوٹا ۔ ان سے ملنے سے ہمیشہ سوچوں کو نیا زاویہ میسر آتا  اور مواقع کے کئی نئے در وا ہوتے لیکن افسوس آج وہ مربی ، وہ مشفق ،وہ استاد ہم میں نہیں رہے ۔ میرے حقیقی والد تو 2008 میں داغ مفارقت دے گئے ۔ لیکن میں سجھتا ہوں کہ میں یتیم آج ہوا ہوں کہ والد سے بڑھ کر استاد اور مربی کا سایہ سر سے اٹھ گیا ہے ۔۔۔۔ یقینا انکی شخصیت با کمال تھی   اور وہ لاتعداد تخلیقی صلاحیتوں کے مالک تھے ، ایک کامیاب ڈرامہ نگار کے ساتھ ساتھ وہ ایک ، مثالی ایڈیٹر، غیر معمولی قلم کار،بہترین منتظم ، صداکار ، ڈائریکٹر ، انگریزی اور اردو دونوں پر یکساں عبور رکھنے والے بہترین اسکرپٹ رائٹر اور لا جواب انسان تھے ۔ بلاشبہ وہ پاکستان میں پبلک انٹرسٹ جرنلزم کے بانیوں میں سے تھے ۔ انہوں نے ہی جرنلزم میں inclusivity اور diversity کا کلچر متعارف کرایا ۔سچ یہ ہے کہ جیو کےخیال سے اسکی تعبیر تک۔۔۔ اسکے نام سے لیکر اسکی تفسیر تک ۔۔۔۔ عمران اسلم کا دماغ ہی تھا۔۔۔۔۔وہ اپنے عہد کے بڑےانسان تھے۔ انکی رحلت سے میڈیا انڈسٹری کاایک عہد تمام ہوا۔

 

اے اللہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ ہم نے انہیں سراپا محبت و شفقت ہی پایا ،  وہ تیرے بندوں کے ساتھ بہت نرمی سے پیش آتے اور عاجزی و انکساری کا پیکر تھے ۔

اللہ آپ کی مغفرت فرمائے ۔۔۔ اورجنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے ۔۔۔ آمین

لیجئے ۔۔ ایک پرومو میں ان کی آواز سنیے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *