سندھ دھرتی کے آسمان کا رنگ آج للت کو بہت کھلتا ہوا محسوس ہو رہا تھا .جہاں اس نے اپنی زندگی کی چالیس سے زائد بہاریں گزار یں تھیں ۔ مشقت کی چکی میں پستے، زندگی کی بےیقینی نے اس کے چہرے پر جھریوں کا جال بچھا دیا تھا لیکن آج اس کے چہرے پر مجھے ایک ایسی چمک نظر آرہی تھی جو امیدوں کی کرنوں کی مانند تھی۔ للت کے آس پاس اس کی بیوی اور بیٹے ، بیٹیاں بیٹھے مستقبل کے سہانے خواب سجا رہے تھے۔ بیٹا تعلیم حاصل کرنے کا پلان بنا رہا تھا تو للت کی بیٹی اپنے ہاتھوں پر بنے آبلوں کو دیکھ کر سوچ رہی تھی کہ اب ظلم کے یہ نشان جلد ہی مٹنے والے ہیں کیونکہ آج ہی للت کے خاندان کو علاقے کے جاگیردار کی نجی جیل اور جبری مشقت سے آزادی ملی تھی۔
اور اس پنجرے کا تالا توڑنے والا کوئی مردِ مجاہد نہیں بلکہ ایک ہندو بہادر خاتون تھیں جس نے اب تک ہزاروں ہندو ، عیسائی اور مسلمان قید کسانوں کو رہا کروایا ہے۔ حیدرآباد میں ویرو کولھی کا کسانوں اور نجی جیلوں میں قید لوگوں کو آزادی دلانے میں بڑا نام ہے۔
سندھ اور پنجاب میں بااثر زمینداروںمیں زمینوں پر کام کرنے والے ہاری اور انکے خاندان کو اکثر نجی جیلوں میں بند کرنے کی روایت صدیوں سے چلتی آرہی ہے۔ ویرو کولھی نے خود بھی کئی سال تک خاندان سمیت زمینداروں کے پاس کام کیا اور ایک دن ذہن پر پڑی غلامی کی زنجیر توڑ دی۔ آزادی کے بعد سے ویرو نے نجی جیلوں سے لوگ بازیاب کروانے کا سفر جاری رکھا اور اسی جنگ میں اس نے اپنی پوری زندگی وقف کر دی ہے۔ اس عظیم کام میں ویرو نے مختلف مذاہب کے لوگوں کو شامل کیا اور اپنی قید کو ظلم سمجھ کر چالیس ہزار کے قریب ظلم کی چکی میں پستے مرد ، خواتین اور بچوں کو بااثر زمینداروں کی نجی جیلوں سے رہا کروایا، جس میں ہندو، مسیح، مسلمان اور دیگرمذاہب کے ہاری شامل ہیں۔
ساٹھ برس کی ویرو کولھی اب بھی دن رات بےیارو مددگار افراد کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے دکھائی دیتی ہیں جس میں ہندو ذہب کی مختلف ذاتوں سمیت مسلمان اور عیساِئی بھی شامل ہیں۔ویرو کولھی ہر مسلک اور مذہب کے لوگوں کے مسائل کو اپنی پریشانی سمجھ کر ان کے حل کے لیے ان مظلوم لوگوں کے ساتھ مقامی تھانےسے لیکر سٹی کورٹ اور پھر آگے ہاِئی کورٹ تک ان کے مقدمات لڑنے میں آگے آگے رہتی ہے۔انہیں نہ وڈیروں کا خوف ہے ، نہ سیاست دانوں کا ڈر۔ جن وڈیروں کے خوف سے لوگ غلط کام کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں ان کی جانب سے لاتعداد دھمکیاں ملنے کے باوجوداس سماجی کارکن نے اپنے قدم نہ تو پیچھے ہٹائے، اور نہ ہی مقامی طاقتوں کے آگے سر جھکایا۔
یہی کام ویرو کولھی کی دنیا بھر میں پہچان بن گئی اور انہیں قومی اور بین القوامی ایوارڈز سے بھی نوازا جا چکا ہے، جس کی رقم سے انہوں نے دو کمروں پر مشتمل گھر بنوایا۔ اس کا ایک کمرہ سکول کے حوالے کیا جبکہ نصف رقم جبری مشقت سے رہا ہونے والے کسانوں کے لیے وقف کردی۔ اس وقت حیدرآباد اور عمرکوٹ میں جبری مشقت سے رہائی پانے والے کسانوں کے تین کیمپ موجود ہیں۔
اپنے حق کے لیے طاقتور افراد سے ٹکر لینے کی پاداش میں ویرودو بار حیدرآباد کی سینٹر جیل میں سزا بھی کاٹ چکی ہیں۔ بیس سال کی عمر میں بھٹی کی نجی میں قید بھی اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ قید رہیں۔ ویرو نےاپنی کہانی سناتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے اس قید میں اتنے کٹھن دن گزارے کہ نہ دن کزرتے تھے اور نہ ہی سیاہ راتیں ختم ہوتی تھیں، ایک دن موقع دیکھ کر بھاگ نکلی اور اپنے خاندان کے لوگوں کو بھی رہا کروایا ۔ ؎
اپنی آزادی کی داستان سناتے ہوئے ویرونے بتایا کہ “ضلع عمرکوٹ کے علاقے ڈگھو کا میں زمیندار نے ان لوگوں کے رستے روک رکھے تھے لیکن پولیس کی مدد سےویرو اور ان کا خاندان بچ نکلا ۔” ویرو پر متعدد بار فائرنگ بھی کی گئی لیکن وہ معجزانہ طور پر بچ گئیں۔
کسی مذہب کی تفریق کیے بغیر ان بے سہارا اور مجبور افراد کی مدد کرنے والی ویرو کولھی پاکستان کے لیے ایسا دِیا ہیں جس کی دھیمی روشنی سندھ اور پنجاب کے ہزاروں للت کی زندگیوں کو آزادی اور آسودگی سے منور کر رہی ہے۔