سماجی ہم آہنگی کیسے پیدا کی جائے

حبس بےجا کے پنجرے کا تالا توڑنے والی ویرو کوہلی کی کہانی
February 16, 2023
مذہبی ہم آہنگی کے پرچار کے لئے کلیان سنگھ کی کاوشیں
February 20, 2023

سماجی ہم آہنگی کیسے پیدا کی جائے

    (زین العابدین)

 

یہ فروری کی ایک سرد رات  تھی ۔ محلے  کے نکڑ پہ لگی پیلی اسٹریٹ لائٹ  کی روشنی   نے گلی میں  دھند کا سماں باندھ دیا تھا ۔  یہ کراچی کا ایک پوش علاقہ تھا  جہاں سے میں  گزر رہا تھا۔ میں نے بیس بائیس برس کے دو لڑکوں کو آپس میں لڑتے دیکھا، دونوں ایک دوسرے کے عقیدوں کو برا بھلا کہہ رہے تھے اور ایک دوسرے کے لیے  نازیبا الفاظ بھی استعمال کر رہے تھے۔ آس پڑوس کے لوگ ان دونوں کی صلح صفائی کی کوششوں میں لگے تھے، انہیں سے مجھے پتہ لگا کہ یہ دونوں بہت اچھے دوست رہ چکے ہیں ۔ اس لمحے میں نے سوچا، کیا اس طرح ایک دوسرے کے مذہب کو سمجھے بنا جھگڑنا ٹھیک ہے؟ لیکن یہ سوال میرے ذہن میں گردش کرنے لگا کہ میں کہاں سے، کس سے دوسرے مذاہب کےبارے میں جان سکتا ہوں ۔

لیکن  کہتے ہیں کہ وقت سب سے بڑا استاد ہے ۔ وقت بڑھنے  اور شعور کی منزلیں طے کرنے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ مذہبی رواداری اور برداشت کا پہلا سبق گھر سے اور پھر اسکولوں میں سکھایا جا سکتا ہے۔گھر کے بزرگ یا نوجوان نئی نسل کو یہ سمجھا سکتے ہیں کہ کسی کو حق نہیں ہے کہ وہ دوسرے کے مذہب کا مذاق اڑائے یا ان کی دل آزاری کرے۔ والدین نئی نسل کو تربیت دینے کے لیے دانش ور، مفکّرین، صاحبِ بصیرت افراد کی تحریریں، گفتگو کو سننے، پڑھنے اور سمجھنے میں مدد کریں۔ والدین کے ساتھ ساتھ نوجوان نسل پر بھاری ذمہ داری ہے کہ وہ تمام فورمز پر تشدد بھڑکانے، نسل پرستی اور تعصب کو فروغ دینے والی باتوں کی حوصلہ شکنی کریں اور ایسا تب ہی ہو سکتاہے جب ہم سب دوسرے مذہب کو کم از کم اتنا پڑھیں اور جانیں کہ دنیا کے تمام مذاہب نے معاشرے میں امن، ہم آہنگی اور سلامتی کی تلقین کی ہے، دوسروں کو نقصان پہچانے سے بچنے کی تعلیم دی ہے اور معاشرے کی تمام سطحوں پر انسانیت کی بھلائی اور فلاح کے لیے حوصلہ افزائی کی ہے۔ ورنہ بحث برائے بحث اسی طرح کے واقعات کو جنم دیتا ہے جس کو میں دیکھتے ہوئے آیا تھا۔

لا شعور سے شعور کی گھاٹیوں کے سفر کے دوران مجھے معلوم ہو اکہ اسکولوں اور کالجوں کو بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینے اور وسعت دینے میں اہم   کردارہے۔ اس کے ذریعے طالب علموں کو نہ صرف مختلف مذاہب سے آگاہی ملے گی بلکہ ان کے ذہنوں میں موجود سوالات کے جواب بھی ملیں گے نتیجاً ان کے دوسرے عقیدوں کے بارے میں خدشات دور ہوتے چلے جائیں گے۔ نوجوان طلبہ کے نوخیز ذہنوں کو برداشت کی اعلیٰ قدر کا سبق سکھایا جائے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ یونیورسٹی سطح پر تعلیم حاصل کرنے والے تمام طلبا وطالبات امن کے سفیروں کا کردار ادا کریں گے۔ تعلیمی اداروں میں مختلف مذاہب کو نوجونوں کو ایک ساتھ بٹھانا ، گیمز کھلانا ، انہیں انسانیت کی خدمت کی جانب مائل کرنا، مختلف موضوعات پر مکالمہ و مباحثہ سے موجودہ طبقاتی جنگ کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ یہ سرگرمیاں ان کے بیچ اجنبیت اور بے گانگی کی دیوار گرا سکتی ہیں۔ نوجوان طلبہ کی ازسرنو ذہنی تشکیل کے لئے تعلیمی نصاب میں امن و استحکام اور سماجی و معاشرتی شعور کوحصہ بنائیں کیونکہ ایسے اداروں میں جہاں طلبہ اقلیتوں کے لیے مثبت رویے اختیار کرتے ہیں ، وہاں کا ماحول اقلیتی گروہوں کے لیے سازگار ہوتا ہے اور زیادہ بہتر طور پر آگے بڑھ سکتے ہیں۔

سماجی سطح پر ہم آہنگی  کے فروغ، اپنے مذہب کے بارے میں غلط فہمیاں دور کرنے کیلئے، عید، ہولی، کرسمس، جیسے تہواروں میں دوسرے مذاہب کے لوگوں کو بھی مدعو کرنا چاہئے۔ ایک دوسرے کے ساتھ خوشیاں منانے سے محبت اور احترام کو فروغ ملتا ہے جو سماجی ہم آہنگی کو مضبوط کرنے میں مدد گار ہے۔ اس قسم کی سرگرمیوں سے معاشرہ سیکھے گا کہ سب برابر ہیں اور ہر کسی کو اپنی خوشیاں آزادی اور اطمینان کے ساتھ منانے کا حق ہے۔ بھروسہ ، اعتبار وہ گوند ہیں جو رشتوں کو جوڑے رکھنے کا کردار ادا کرتے ہیں، یہ اعتبار تب ہی پیدا ہوتا ہے جب ہم مشترکہ مسئلہ پر کام کرتے ہیں، ورنہ کراچی کے دو دوستوں میں ایسی ہی دوریاں لانے کا سبب بنتا ہے۔

سماجی ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے آگاہی سیشن بھی کیے جا سکتے ہیں اور نوجوانوں کو ایسے اجلاس میں حصہ لینا چاہیے۔ مکالمے بھائی چارے اور ہم آہنگی کا پیغام عوام تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ۔ تنوع ایک فطری امر ہے اور اس كو قبول كرنا لازم ہے، اس لیے نوجوانوں کو آگے بڑھ کر کوشش کرنی ہوگی کہ ایک دوسرے کا ساتھ دیں ، منفی آراء اور خیالات کو روکنے کے لیے آس پاس کےلوگوں کو سمجھانے کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کو استعمال میں لائیں کہ معاشرے میں سب برابر ہیں اور کسی کو کسی کے مذہب کا مذاق اڑانے کا حق نہیں ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *