“میں خوش ہوں کہ مجھے بھی انسان سمجھا جا رہا ہے”۔ سننے میں تو ایک عام سا جملہ ہے مگر پاکستان کی شوبز انڈسٹری میں قبولیت کا درجہ پانے والے خواجہ سرا رمل علی کے ان الفاظ میں کتنی گہرائی اور تکلیف کا عنصر ہے یہی سوچتے ہوئے شہزادی چرچ میں داخل ہوئی۔ اسے بھی کلیسا کی اونچی اونچی دیواروں کے سائے میں ٹھنڈک کا احساس ہوتا تھا، اسے بھی یہیں آکر خدا کے آگے معاشرتی ناانصافیوں پر رو کر سکون اور حوصلہ ملتا تھا۔
لیکن آج بھی چرچ میں داخل ہوتے اسے لوگوں کی ہتک آمیز نظروں کا سامنا کرنا پڑا جیسے کہ وہ کوئی عجوبہ ہو ، اسے دیکھتے ہی ماؤں نے اپنے بچوں کو ایسے آغوش میں بھرا جیسے کہ وہ اچھوت ہو۔ Friday prayer اسی اذیت بھرے احساس کے ساتھ اس نے ادا کی۔ ابھی وہ چرچ سے نکلی نہیں تھی کہ انتظامیہ نے آکر اسے آئندہ اس مقدس جگہ آنے سے منع کردیا۔ شہزادی نے دکھی دل سے سوچا ۔۔۔۔کیا اس کاوجود پاک نہیں ہے؟
یہ پاکستانی معاشرے کی بہت ہی کڑوی حقیقتیں ہیں لیکن اپنےمنفی خیال کو جھٹک کر اسے وہ خواجہ سرائیں یاد آئیں جنہوں نے پاکستان کے اسی معاشرے میں رمل علی کی طرح خود کو مختلف شعبہ جات میں منوایا ہے چاہے وہ وکالت کا شعبہ ہو، باکسنگ کا، میڈیکل کا ہو یا کوئی تعلیمی امتحانات ہوں، اس مثبت سوچ نے اس کا حوصلہ بڑھایا۔ ان میں غزالہ شفیق جیسی خواجہ سرا بھی ہیں جو اپنے جیسے کتنے ہی لوگوں کے لیے آسانی پیدا کرنے کا بیڑا اپنے سر اٹھائے ہوئے ہیں۔ مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والی غزالہ شفیق نے شہزادی جیسی بہت سے خواجہ سراؤں کی آہیں سن لیں۔۔ بالآخر انہیں ایک مسلمان خواجہ سرا وکیل نشاراؤ کے توسط سے ایک اچھوتا خیال آیا۔ انہیں ایک ایسی جگہ میسر آئی جہاں وہ بغیر کسی روک ٹوک کے عبادت کرتیں ہیں اور دوسرے عیسائی خواجہ سراؤں کوبھی عبادت کا سکون حاصل ہوتا ہے۔ پاکستان کا پہلا اور واحد خواجہ سراؤں کا چرچ غزالہ کے گھر کے صحن میں قائم ہے۔غزالہ شفیق کو پاکستان کی تاریخ میں خاتون پادری ہونے کا بھی منفرد مقام حاصل ہے۔
ایسی ہی ایک کہانی اسلام آباد کے ایک مسلمان خواجہ سرا رانی خان کی ہے ۔ جو ڈانسنگ کی دنیا کو الوداع کہہ کر مذہبی درسگاہ کی ذمہ داری سنبھالے ہوئی ہیں۔ اسلام آباد میں کتنے ہی اپنے جیسے لوگوں کو اسلامی تعلیمات دینے کے فرائض انجام دے رہی ہیں۔ رانی اپنی زندگی کے تجربے شیئر کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ عبادت گاہ جانے میں اور اپنے عقیدے کے مطابق عبادت کرنے میں بھی ان کو کئی قسم کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا، قدم قدم پر انہیں امتیازی سلوک کاسامنا تھا۔ اسی لیے وہ خواجہ سرا کمیونٹی کے لیے دین پر عمل کرنےکے لیے ایک محفوظ جگہ بنانا چاہتی تھیں۔ آج یہ مدرسہ نہ صرف خواجہ سراؤں کے لیے بحالی مرکز کے طور پر بھی کام کررہا ہے بلکہ بے گھر بچوں کے لیے ’رہائشگاہ‘ بھی ہے۔یہاں ماہانہ راشن اور ضروریاتِ زندگی کا سامان بھی مہیا کیا جاتا ہے ۔
میں نے اسکول سے لے کر آج اپنی پیشہ وارانہ زندگی تک جنس کے خانوں میں صرف مرد اور عورت، لڑکا اور لڑکی پڑھا ، سنا اور لکھا دیکھا ، کبھی بھی ٹرانس جینڈر لفظ ‘خواجہ سرا’ نہ دیکھا اور نہ ہی اسے اہمیت دی۔ یہ پاکستان کی ایک ایسی آبادی ہے جسے صرف جنسی تفریق کے بنیاد پر ہمارے معاشرے میں ہر لحاظ سے ہمیشہ نظر انداز کیا گیا ہے ۔ ایسے میں رانی خان اور غزالہ شفیق کا خواجہ سراؤں کو دین کی تعلیم جیسے زیور سے آراستہ کرنے کا فیصلہ اس پورے طبقے کے لئے ایک باعث فخر ہے ۔پاکستان کےاس مخصوص اقلیتی طبقے میں مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دینا اور رب سے جڑنے کے لیے محفوظ جگہ مہیا کرنے سے ۔ پاکستان میں بڑھتی ہوئی معاشرتی اور سماجی ہم آہنگی سے امید ہے کہ اس کمیونٹی کو مختلف شعبوں میں جانے کے راستے مزید کھلیں گے ، ایسی اِن گنت مثالیں سامنے آئیں گی اور پاکستان کے خواجہ سرا بھی اپنا مقام بنا پائیں گے۔
1 Comment
بہترین۔ پاکستان کا امن پسند چہرے پر روشنی ڈالنے کے آپ مبارک کے حقدار ہیں۔