میں اکثر پاکستان میں بین المذاہب ہم آہنگی کی کہانیوں کی تلاش میں ہر ایک سے پوچھتی رہتی ہوں کہ کیا ان کے پاس ایسی
کہانیاں ہیں جن کا میں احاطہ کر سکوں۔ اگرچہ یہ گفتگو کافی عجیب ہے، لیکن یہ ان چند موقعوں میں سے ایک تھا جب میں نے
اس موضوع پر اپنی ایک نئی دوست سے بات کی ۔ اس نے مجھے کمیون آرٹسٹ کالونی اور اس کے مالک کے بارے میں
حیرت انگیز باتیں بتائیں جس نے مجھے اس جگہ اور اس کے مالک کے بارے میں تحقیق کرنے پر اکسایا۔
آن لائن رسیرچ سے مجھے زیادہ کچھ نہ ملا تو میں کراچی کے پررونق علاقے کوئنز روڈ کی مسکین گلی پہنچ گئی۔ گلی میں کافی
اندر تک چلنے کے بعد مجھے کمیون آرٹسٹ کالونی کا گیٹ دکھائی دیا جس پر بنا بڑا سا پاکستانی جھنڈا اس بات کی علامت تھا
کہ میں صحیح جگہ پہنچی ہوں۔ عمارت کے اوپرپانچ کونےوالا free masonic star کندہ تھا۔ اس سے مجھے اندازہ ہوا کہ یہ
عمارت پہلے فری میسنز کی ملکیت رہی ہے جو اب مسلمانوں کے پاس ہے۔ اور اس کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس
تاریخی اثاثے کوچھپایا نہیں گیا جبکہ یہ ایک دوسرے مذہب کی نشانی ہے۔
اس جگہ کے بانی یوسف بشیر قریشی کے بارے میں وہاں پر کام کرنے والے لوگوں سے پوچھتی ہوئی میں ایک خالی عمارت میں داخل ہوئی۔ ڈیزائن ورکشاپ اور فوٹو گرافی اسٹوڈیو سے گرزرنے کے بعد جب مجھے فوٹوگرافی اسٹوڈیو میں انتظار کرنے کےلیے کہا گیا تواس چھوٹی سی جگہ پر آباد رنگوں کی دنیا میں کھو سی گئی۔ مسکراہٹیں بکھیرتی اسٹائلش ماڈلز، معاشرے کے حسن کو اجگرکرتی تصاویر اور کہیں پاکستان کے علاقائی ثقافت کے رنگ بکھرے نظر آئے جومیرے جیسے متلاشیوں کے لیے ایک دعوتِ نظارہ تھیں۔ اور جیسے ہی میں یوسف بشیر قریشی کے کمرے میں داخل ہوئی تو خوشگوار حیرانگی نے مجھے گھیرلیا۔ اس وقت تک مجھے اس جگہ اور اس شخص (جس سے میں ابھی تک نہیں ملی تھی) کے بارے میں کم ازکم ایک بات واضح ہو چکی تھی کہ وہ پاکستانی ثقافت سے بہت محبت کرنے والے ہیں۔ یہ تاثر صرف جھنڈے والے گیٹ ہی کی وجہ سے نہ تھا بلکہ اس کمرے کی سجاوٹ بھی بڑی وجہ تھی۔ ایک جانب چنیوٹ کا خوبصورت لکڑی کا جھولا رکھا تھا اور اس کے قریب ہی پاکستانی ثقافت کی عکاسی کرتا تخت بچھا تھا، دونوں ہی رنگ برنگی سندھی رلیوں سے ڈھکے ہوئے تھے۔ سندھی ثقافت کو دیکھ کر مجھے احساس ہوا کہ امریکہ میں رہنے کے باوجود یوسف بشیر قیریشی نے سندھ کے علاقے میرپور ساکرو سے اپنے اجداد سے ورثہ میں ملا عشق کبھی مانند نہیں پڑنے دیا ۔
یوسف بشیر قریشی کے فرشی آفس سے ظاہر تھا کہ وہ اپنی مٹی سے محبت کرنے والا انسان ہے ۔ فرشی نشست کے برابر چار انچ کی اونچائی پر ایک مستطیل تخت بچھا تھا ۔۔ میں ان سے بات کرنے کیلئے اسی لکڑی کے تخت پر بیٹھ گئی ۔ یہ تو مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ یہ لکڑی کا مستطیل تخت ان کی جائے نماز ہے ۔ جو پہلے انکے والد استعمال کرتے تھے اور اب وہ خود ۔ میرا تعلق ہندو کمیونٹی سے ہونے کے با وجود انہوں نے مجھے اس تخت پر بیٹھنے سے نہیں روکا ۔۔ مذہبی ہم آہنگی کی کہانیاں ڈھونڈنے والی حرشا کیلئے، مذہبی ہم آہنگی یوسف بشیر قریشی کی صورت میں اس کے آگے مجسم تصویر کی مانند موجود تھی۔
یوسف بشیر قریشی نے اپنے اسسٹنٹ پرکاش کو مجھے تھاڈل پیش کرنے کو بلایا جو سندھ کا مشہور مشروب ہے۔ ہندو مسلم ، کرسچن تمام افراد کو ایک ساتھ کام کرتے دیکھ کر میرے اندرخوشی کا احساس جاگا۔۔پرکاش کی موجودگی نے مجھے سمجھا دیا کہ YBQمذہب کو انسانیت اور انسانوں کے درمیان دیوار نہیں بناتے ۔وہ مذہب کی تفریق کیے بغیرانسانوں کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ میرے خیال کی تصدیق یوسف بشیرنے یہ بتا کر کردی کہ یہاں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی بہتات ہے، چاہے وہ عیسائی ہوں، ہندو ہوں، مسلمان ہوں، شیعہ ہوں، سنی ہوں اور دوسرے فرقوں کے ہوں۔ پھراس چھوٹے پاکستان کے متعلق گردش کرتے سوالات پوچھنے کی باری آئی کہ کمیون کیا ہے؟ یہاں کون پینٹ کرتا ہے؟ کیا یہاں دوسرے مذاہب کے لوگ کام کر رہے ہیں؟ آپ کے خیال میں پاکستان میں بین المذاہب ہم آہنگی کیوں ہونی چاہیے؟
یوسف بشیر نے بتایا کہ یہ عمارت 1865 میں فری میسنز کی ملکیت تھی جو بعد میں ان کے خاندان کے حصے میں آئی۔ کمیون آرٹسٹ کالونی کے دروازے ہر اس انسان کے لیے کھلے ہیں جو آرٹ اور ثقافت کو پیار سے دیکھتا ہے۔ یہ جگہ کسی بھی تعصب و تفریق سے پاک ہے، جہاں کسی بھی قسم کے امتیاز سے قطع نظر تمام باصلاحیت فنکاروں، فلم سازوں، موسیقاروں، فیشن ڈیزائنرز اور پرفارمنگ آرٹس کا خیرمقدم کیاجاتا ہے۔ کمیون کی دیواروں پر سجی مختلف مذاہب کے مصوروں کے بنائے ہوئے شاہکار فن پارے آرٹ کا حسین امتزاج پیش کرتے ہیں۔
یہ پرسکون جگہ نہ صرف پاکستانیوں کو افراتفری کی زندگی سے نجات فراہم کرتی ہے بلکہ فوٹو گرافی اور فیشن شوز، ثقافتی نمائشوں، ڈراموں، فلموں کی نمائش، موسیقی کی محفلیں اور ریڈ کارپٹ ایونٹس جیسے پروگراموں کی میزبانی کرکے مقامی لوگوں کو اپنے فنکارانہ صلاحیتوں کو سامنے لانےمیں مدد دے رہی ہے۔ کمیون آرٹسٹ کالونی کراچی کے ان نایاب مقامات میں سے ایک ہے جہاں مذہب، نسل اور زبان کی تفریق کیے بغیر ہر کسی کا خیرمقدم کیا جاتا ہے۔ مسکین گلی سے واپسی پر میں بھی ذھنی طور پر امیر ہو گئی تھی ۔۔ انسانیت سے پیار اور مذھبی ہم آہنگی سے مالا مال یہ کمیون سینٹر پاکستان کے متنوع سماج میں یکجہتی ۔۔ رواداری اور محبت سے بھرپور تازہ ہوا کا ایک جھونکا ہے ۔۔۔