چاند کی دید اورنویدِعید

نوجوان ذہنوں میں ڈیجیٹل میڈیاکےذریعےمثبت تبدیلی لاناحنا الیاس کامشن
April 17, 2023
کراچی کے تعمیراتی ورثے میں اقلیتوں کا کردار
April 28, 2023

(سبین آغا)

عید کا وی لاگ ریکارڈ کرنا چاہ رہی تھی کے چاند کی دید کے ساتھ کچھ احوال عید بتائوں گی۔  کچھ ایسی عمدہ تحریرہو کہ دیدارچاند کی نویدعید کے ساتھ جڑت کا رنگ چوکھا آجائے۔

امن کے متلاشی نجوانوں کے اس فیس بکی صفحے کی مالکن ثنا انعام سے بھی بلاگ کا پکا والا وعدہ کرلیا تھا۔ اب نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن کے مصداق جی ہولاتے رہے۔۔

سرکھجا کھجا کرتھک گئی مگر آمد ہی نہ ہوے بالکل ویسے ہی جیسے انتیسویں روزے پربھی عید کا چاند ہمارے محترم مولوی صاحبان کی عقابی نگاہوں کی پکڑمیں نہ آوے۔ بادلوں کی اوٹ سے چھپن چھپائی کھیلے۔

اورکسی ٹہنی کی اوٹ سے جب چاند کا آنچل ہلکا سا لہرائے جس سے پکڑ میں آجاوے توایسے وقت میں آوے کہ مولوی صاحبان تو بھریں سکھ کی سانس مگرہماری سانسیں ہوجاویں اتھل پتھل کہ اب تو وقت کم ہے مگرمقابلہ سخت ۔

اب شکوہ شکایت کس سے کریں؟ ہمارے والدین تو عدم سدھار گئے جن سے شکوے بھی مان سے کرتے تھے اور دھونس، زبردستی سب چلتی تھی، اب تو پاس رہ گئے صرف ہمارے بڑے بھائی جان اور ہمارا خدا۔

بھائی جان تو ہمارے سارے جہان سے اچھے ہیں، اتنے اچھے کہ شکوے کی نوبت ہی نہیں آنے دیتے۔

تو شکوے شکایت کی جو دل میں بھرت ہے وہ خدا کے سامنے ہی مان سے کرلیتے ہیں۔ کہ یااللہ باورچی خانے اوربیوٹی سیلون کے درمیان تو نے اتنا زیادہ فاصلہ کیوں رکھا؟

ہمارے جیسے کاہل الوجود کو عید کا تہوارمنانے کے رائج کلیوں کواتنے قلیل وقت میں اپنے ڈھب سے منانے کے لئے وہی رفتاراورمشاقی چاہیئے ہوتی ہےجو ہم عام دنوں میں کام دھندے سے جان چھڑانے میں دیکھاتے ہیں۔

رسموں رواجوں سے ہمیں یوں تو خاص لگائو نہیں ہے ۔ ہم سر گشتہ رسوم و قیود ہی رہتے ہیں۔

مگراب ایسے خشک مزاج ناقدرے بھی نہیں۔اگرعید پرنئے کرتے کی کلیاں و ڈوریاں اور چوڑی دار پاجامے کی چوڑیاں ہماری دی ہوئی تعداد سے انگشت بھر بھی کم یا زیادہ ہوں توبس سب سے پہلے اپنی ہم نام درزن سہیلی کو لفظ ’’بلوے‘‘ کے لغوی معنی واٹس ایپ کردیتے ہیں۔

حنا کے رنگ کے تیکھے پن اور مہک کے تو کیا کہنے، ایسا ہو کہ میڈم نورجہاں کا ’’ہماری سانسوں میں آج تک وہ حنا کی خوشبو مہک رہی ہے‘‘  چھم سے یاد آنا چاہئے۔

اورشیرخرمے کی منظرکشی ہماری اندرونی آنکھ کچھ یوں کرتی ہے کہ  سویوں میں تیرتے خرمے ہمیں دودھیا جھیل میں رقص کرتی سیاہ بطخوں کی طرح لگتے ہیں، جن سے دید بھی محظوظ ہو اورشکم بھی سیر۔

حرف آخر کے طور پرکہنا چاہتے ہیں کہ عید ہمارے لئے زندگی کی اس گہماگہمی کا نام ہے جو اب عنقا ہو چکی ہے۔ ہم عید کے عید اسے بحال کرنے کی اپنی سی کوشش کرلیتے ہیں۔

آپ سب کوعید سعید مبارک۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *