میری عمر اس وقت انیس سال تھی، جب میرے محلے میں ایک لڑکے کو،جس کی عمر تقریباً چودہ برس تھی، پیٹ میں شدید درد اٹھا، اس پریشانی میں وہ اپنے گھر میں اکیلا تھا اس لیےمیں نے اس کے رونے کی آواز سنی تو میں اس کے گھر پہنچا اور اسے قریبی اسپتال لے گیا۔ یہاں سائمن نامی ایک ڈاکٹر جو ایک عیسائی ڈاکٹر تھا اس کی مدد کے لیے دوڑا۔ ڈاکٹر سائمن نے فوراً اس کے ٹیسٹ کروائے اور بتایا کہ اسے فوڈ پوائزننگ ہوئی ہے اور اسے کچھ دوائیاں دیں۔ اس کے بعد ڈاکٹر نے اسے بغیر فیس وصول کیے ڈسچارج کیا اور کہا کہ تم اس ملک کا مستقبل ہو، ہم تمہارا خیال نہیں رکھیں گے تو کون خیال کرے گا؟
ڈاکٹر کی بات سن کر میں بہت متاثر ہوا کہ اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے کے ناطے وہ اس ملک کے بارے میں اتنا اچھا سوچ رہے ہیں۔ مجھے احساس ہوا کہ پاکستان میں بہت سے ڈاکٹرز ہیں جو اس ملک کے بارے میں اچھا سوچتے اور ہم وطنوں کو کسی بھی قسم کی بیماری سے بچانے کے لیے اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارا پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس میں مختلف ثقافتوں اور مذاہب کے کئی رنگ نظر آتے ہیں۔ بہت سی مذہبی برادریوں میں سے مسیحی برادری نے ملک کی ترقی خصوصاً صحت اور تعلیم کے شعبہ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
پاکستان میں مسیحی برادری ایک اقلیتی گروہ ہے جو آبادی کا 2 فیصد سے بھی کم پر مشتمل ہے۔ تاہم، انہوں نے ملک بھر میں صحت کی دیکھ بھال کی خدمات کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ عیسائی ہسپتال اور کلینک ایک صدی سے زیادہ عرصے سے تمام مذاہب کے لوگوں کو طبی خدمات فراہم کر رہے ہیں۔
پاکستان کے مشہور عیسائی ہسپتالوں میں سے ایک ٹیکسلا کرسچن ہسپتال ہے جسے 1922 میں قائم کیا گیا۔ یہ اسپتال، بلا تفریق، تقریباً ایک صدی سے مقامی لوگوں کو طبی سہولیات فراہم کر رہا ہے۔ یہاں جنرل میڈیسن، سرجری، اطفال، امراض نسواں، اور زچگی، یہ تپ دق اور جذام کے مریضوں کی خصوصی دیکھ بھال کی جاتی ہے۔
ملک میں اس وقت 157 لیپروسی اسپتال مسیحی افراد چلا رہے ہیں، جن میں آٹھ سوسے زائد اسٹاف جذام کے مریضوں کے علاج میں مصروف ہیں۔
کراچی میں سیونتھ ڈے ایڈونٹسٹ کے علاوہ، دیگر بڑے عیسائی ہسپتالوں میں ہولی فیملی ہسپتال اور میری ایڈیلیڈ لیپروسی سینٹر اور لیڈی ڈفرن اسپتال عوام کی خدمت میں اپنی پہچان رکھتےہیں۔ ہولی فیملی ہسپتال 1928 میں قائم کیا گیا تھا جسے بعد میں نرسنگ اسکول درجہ ملا۔ ہولی فیملی ہسپتال نے پاکستان میں طبی تعلیم کو پھیلانے میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔ اس کے علاوہ سینٹ تھریسا نرسنگ ہوم نے مسیحی ہسپتالوں میں نرسوں کو بھیجا تاکہ مریضوں کے علاج کے ساتھ ساتھ ڈاکٹروں اور نرسوں کو تربیت بھی دے سکیں۔
لاہور کے جنرل ہسپتال میں گریڈ 1 سے 17 تک کے آٹھ سو مسیحی ملازمین اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیںجبکہ لاہور میں یونائیٹڈ کرسچن ہسپتال، فیصل آباد میں سینٹ رافیل ہسپتال، باخ کرسچن اسپتال قلندر آباد، ایبٹ آباد، نینسی فل وڈ کرسچن اسپتال ساہیوال،کنہار اسپتال مانسہرہ، کرسچن اسپتال کوئٹہ، کرسچن اسپتال ٹانک اور وومن کرسچن اسپتال ملتان کے ساتھ ساتھ پشاور، راولپنڈی لیپریسی اسپتال، سیالکوٹ، ہنری ہالینڈ مشن آئی اسپتال شکارپور اورسینٹ ایلزیبتھ اسپتال حیدرآباد میں طب کے شعبہ سے تعلق رکھنے والے مسیحی ملازمین مسلمانوں کے ساتھ مل کر مریضوں کی بہتری اور اداروں کی ترقی کے لیے کام کر رہے ہیں۔
مریضوں کی دیکھ بھال کرنے والے کرسچن ملازمیں سرکاری ہسپتالوں اور کلینکوں کے علاوہ نجی صحت کی سہولیات بھی فراہم کر رہے ہیں۔ گھروں میں معذوروں اور ضعیف مریضوں کی دیکھ بھال کے خدمات انجام دے رہے ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، پاکستان ساٹھ سے سترفیصد نرسوں کا تعلق مسیح برادری سے ہے جنہیں اکثر ہی امتیازی سلوک اور پسماندگی کا سامنا رہتا ہے، خاص طور پر دیہی اور دور دراز علاقوں میں جہاں صحت کی دیکھ بھال تک رسائی محدود ہے۔ لیکن ان سب چیلنجز کے باوجود، پاکستانی مسیحی برادری ہمدردی اور لگن کے ساتھ اپنے ہم وطنوں کی خدمت کر کے خوش ہیں۔ ان چیلنجوں کے باوجود پاکستانی مسیحی ہمدردی اور لگن کے ساتھ عوام کو صحت کی معیاری خدمات فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کر رہےہیں۔
اب وقت آگیا ہے کہ ہم بحیثیت پاکستانی قوم حوصلہ افزائی کے لیے آگے بڑھیں کیونکہ ماضی کی طرح، آج بھی ہمارے عیسائی بھائی طب کے میدان میں بے لوث خدمات انجام دے رہے ہیں۔