ہمارا شہر کراچی شروع سے ہی متنوع سماج کاحصہ رہا ہے۔ آج کا روشنیوں کا شہر کراچی ، اٹھارویں صدی تک تالپروں کے قبضے میں رہا ۔جس کے آثار منوڑا میں تالپروں کے قلعے کی صورت میں نظر آتے ہیں ۔اسکے بعد یہاں انگریز افواج کا قبضہ ہوگیا۔ شہر میں 1851 سے بلدیاتی نظام پر کام شروع کر دیا گیا۔ چھوٹی سی بندگاہ ایک نئے شہر کا روپ دھارتی چلی گٗی ۔ جہاں بین المذاہب سماج نمو پاتا چلا گیا۔ جس میں مقامی مسلم آبادی کے ساتھ ، ہندو عیسائی پارسی بلکہ یہودی بھی اس شہرمیں بستے تھے۔ بلکہ تقسیم سے پہلے ہونے والی آخری مردم شماری کے مطابق مسلم اقلیت میں اور دیگر مذاہب کے لوگ اکثریت میں تھے۔
آج بھی شہر کے پرانے علاقوں میں نکل جائیں کتنی ہی عمارتیں مل جائیں گی جہاں متعدد عمارتوں پر ہندو، عیسایت اور یہودی مذہب کےنشان مل جائیں گے جو اپنے پرانے باسیوں کاپتہ دیتے ہیں ۔
انگریز سرکار نے سندھ کی پہلی مردم شماری1881 میں کرائی۔ اس مردم شماری کے مطابق سندھ میں 153 یہودی آباد تھے۔ دوسری مردم شماری تک ان کی تعداد دگنی ہوچکی تھی۔ سندھ گزٹ 1907 میں ایڈورڈ ہملٹن ایتکان لکھتے ہیں کہ 1901 کی مردم شماری کے مطابق 482 یہودی آباد تھے۔ تقسیم کے وقت یہ تعداد پورے پاکستان میں تو دو ہزار سے اوپر تک جا پہنچی، لیکن ان کی سب سے بڑی تعداد ہمارے شہر کراچی میں تھی اور یہ تعداد تقریباً ڈیڑھ ہزار یہودیوں تک تھی۔
کراچی کے یہودیوں کی بات کریں تو کیا آپ یقین کریں گے کہ یہاں آج بھی شہریوں کی ایک قلیل تعداد یہودی خاندانوں پر مشتمل ہے۔ نادراکے ایک افسر نے اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ہمیں بتایا کہ2017 کی مردم شماری کے مطابق پاکستان میں831 یہودی آباد ہیں، جن میں سے 438 مرد اور 393 عورتیں ہیں۔ سندھ میں یہ تعداد 180 مرد اور 117 عورتوں پر مشتمل ہے جبکہ 93 یہودی مرد اور 52 یہودی خواتین کراچی کے باسی ہیں۔
آج انہیں شناخت کا مسئلہ ہے۔ عام تاثر یہی ہے کہ عرب اسرائیل جنگوں اور معاشرے کے عدم برداشت کی وجہ سے اس برادری نے اپنی شناخت چھپا لی ہے۔ اب یہ گنے چنے لوگ پارسی، عیسائی اور بہائی کی مذہبی پہچان رکھتے ہیں۔ یہودی برادری کے ختم ہوتے وجود اور ان سے جڑی پراسراریت کی وجہ سے میری طرح بہت سے لوگوں کو دلچسپی ہو گی کہ شہر کراچی میں یہ لوگ پہلے کہاں بستے تھے اور کیسے رہتے تھے؟
کراچی میں ابھی بھی کئی مقامات موجود ہیں، جو کراچی کے یہودیوں کا پتہ دیتے ہیں۔کراچی کے یہ پرانے باسی اولڈ ٹاؤن یعنی لی مارکیٹ، جوڑیا بازار، رنچھوڑ لائن، گارڈن اور رام سوامی کے علاقے میں بستے تھے۔ مجھے ان علاقوں کی کئی پرانی بوسیدہ اور مخدوش عمارتوں پر یہودیوں کا خاص نشان سٹار آف ڈیوڈ ملے۔
ان عمارتوں میں سب سے ممتاز عمارت میری ویدر ٹاور ہے، جس کا مقصد کراچی کے ساحل پر لنگر انداز ہونے والے بحری جہازوں اور آنے والے افراد کو کراچی کے داخلی دروازے کا پتہ دینا تھا۔ یہ آج بھی کراچی کا مصروف ترین چوراہا ہے اور ہر بس والا ٹاور، ٹاور کی صدا لگائے بغیر یہاں سے نہیں گزرتا۔
جب ہم کراچی کے یہودیوں کی تلاش میں نکلے تو سنا تھا کہ کبھی کراچی میں دو سناگوگ تھے ۔ ہمیں اس کے شواہد تو نہ مل سکے لیکن میوہ شاہ میں ان کے دو یہودی قبرستان ضرور ہیں۔ ایک کچھی میمن قبرستان کے ساتھ چھوٹا اور مخدوش ہوتا ٹکڑا اور ایک داؤد بوہرہ قبرستان نور باغ کے ساتھ نسبتاً بڑا یہودی قبرستان جس کے دروازے کے ساتھ سیمنٹ سے سٹار آف ڈیوڈ بنا ہوا ہے اورساتھ ہی ’بغیر اجازت فالتو آدمی کا اندر آنا سخت منع ہے‘ تحریر ہے۔ جس میں آخری قبر 1983 میں ایک خاتون نادیہ کی تھی۔
ہمیں یہودی قبرستان مرحوم اختر بلوچ صاحب لے گئے تھے ۔ اس قبرستان کے رکھوالے چاند سیلمان ہیں ۔ جن کی یہ تیسری نسل اس قبرستان کے رکھوالی کر رہی ہے۔ سیلمان صاحب نے اپنے بلوچی لہجے میں بتایا کہ ’ہم پشت در پشت سے اس قبرستان کے رکھوالے ہیں۔ ہمارے بڑے ہی ان قبروں کے گورکن اور محافظ تھے۔ میرا دادا، میرا باپ، میری ماں اور اب میں اس قبرستان کو دیکھ رہا ہوں۔ آگے میرے بچے دیکھیں گے مجھے یاد ہے کہ اس وقت اختر بلوچ صاحب نےکہا تھا کہ ’یہودیوں اور ہمارے تدفین کے انداز ملتے جلتے ہیں۔ہمیں بھی قبروں کے کتبوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی سمت قبلہ اول بیت المقدس کی طرف ہے۔ ان قبروں کے رخ دیکھ لیں مغرب کی طرف ہیں۔ سب قبروں پر سٹار آف ڈیوڈ کے نیچے عبرانی، انگریزی اور گجراتی زبان میں مدفون کے بارے میں تعارف موجود ہے۔‘
قبرستان کے کتبوں کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ابتدائی قبریں پیلے اور پھر سفید سنگ مرمر سے بنائی گئیں اور آخری آخری کچھ قبریں سیمنٹ کی بھی نظر آئیں۔ زبان کے لحاظ سے گجراتی سب سے آخر میں کتبوں پر لکھی گئی۔ ابتدائی قبروں پر صرف عبرانی اور انگریزی زبان ملتی ہیں۔ کتبے پر سنہ پیدائش اور موت کی تاریخ اور ان کے پیشے یا یہودی برادری میں ان کا مقام بھی لکھا گیا ہے۔
یہ قبریں ہمیں احساس دلاتی ہیں کہ گئے زمانے کا کراچی کتنی برادریوں کے مختلف رنگوں کو قوسِ قزح کی طرح اپنے اندر سموئے ہوئے تھا، وہ رنگ جنہیں وقت کی بارشوں نے مدھم کرتے کرتے بالآخر مٹا ڈالا۔