جدید اور قدیم موسیقی کا ملاپ – لاہوتی میلا

رواداری کے کلچر کا فروغ اور جامعہ کراچی
May 25, 2023
بلھا کی جاناں میں کون – ڈاکٹر کلیان سنگھ کی زبانی
May 26, 2023

جدید اور قدیم موسیقی کا ملاپ – لاہوتی میلا

    (پون کمار )

دمکتے چودہویں کے چاند نے حیدرآباد  کی اُس رات کو نہایت خوشگوار بنا دیا تھا، شہر کی فضا میں  صوفی کلام  کی  بازگشت تھی، کہیں پہ سرائیکی  اور سندھی زبان میں  مدھرگیت سنائی دے رہے تھے اور کہیں سے صوفی پاپ میوزک پر نوجوانوں کے گروپ رقص کرہے تھے ۔ ثقافتی موسیقی سے لطف اٹھاتے میرا دل چاہا کہ اب  نئے دور کی میوزک  کوبھی انجوائے کیا جائے۔ آج میرے لیے یہی تو منفرد بات تھی کہ  حیدرآبار میں منعقد کیا گیا لاہوتی میلے میں جدید اور قدیم موسیقی کا ملاپ ملا دیکھنے کو مل رہا تھا۔ یہاں پاپ، راک میوزک کے ساتھ ساتھ فوک گانے ایک ہی جگہ گائے جا رہے تھے۔

 

ہر سال لاہوتی میلے میں وہ لوک گیت اور ساز، جو مٹ جانے کے خطرے سے دوچار ہیں، گائے اور بجائے جاتے ہیں۔ دم توڑتی ثقافت کو زندہ رکھنے کے لیے ملک بھر سے بلکہ  بیرونِ ملک  سے بھی گلورکار اور موسقار شرکت کرتے ہیں۔ جب سُروں کی اس رات میں بابا بھلے شاہ، امیر خسرو، ، شاہ عبدالطیف بھٹائی، سچل، بابا غلام فرید سمیت مختلف صوفی شاعر اور بزرگ اولیا ء  کی شاعری   پر فنکار منفرد انداز میں گیت پیش کرتے ہیں تو  سننے والے  مدبھی ماحول کے رنگ میں رنگے نظر آتے ہیں۔میں نے ان کے انداز کو منفرد اس لیے کہا کہ صدیوں پرانی دلوں کو چھو لینی والی شاعری کو، نئے دور کے پاپ اور راک میوزک کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے جسے آج کی نسل خوب پسند کرتی ہےاور اسی نئے اندازکے ذریعے اپنی ثقافتی ورثے کو سمجھ پاتی ہے۔

اس برس بھی پورے چاند کے نیچے نوجوان دلوں کا یہ میلہ زندگی کی علامت لگ رہا تھا۔ دریائے سندھ کنارے بیٹھ کر دریائے سندھ کی کہانی سننے کا ایک الگ ہی مزہ تھا، ماضی کے جھروکے کھلے تو ایسے لگا جیسے اسی دور میں پہنچ گئے ہوں۔ یہاں دریائے راوی کا نوحہ بھی  پڑھا گیا، بدھا کو یاد کیا جا تا رہا  اورحال ہی میں کندھ کوٹ میں برادری تکرار میں قتل کیے جانے والے سکھر آئی بی اے یونیورسٹی کے نوجوان پروفیسر اجمل ساوند کو یاد کیا گیا   اور ان کو امن کے گیت سے خراج پیش کیا گیا۔

دسویں لاہوتی میلے میں تھر سے تعلق رکھنے والی ماہی ڈاہی نے بھی تھری آواز میں گیت گانے شروع کیے تو  اپنے ارد گرد میں نے ایسا سکون محسوس کیا گویا صحرا کی وسعتوں میں تن تنہا  چلا جا رہا ہوں اورہر قدم کے ساتھ  میرے پیروں کے نیچے ریت نرم اور ٹھنڈی پڑتی جارہی ہو ۔ لاہور سے اریب اظہر نے بھی شاہ کی واہی سناتے ہوئے محفل کے  صوفیانہ رنگ کو اور حسین کردیا۔پھر جیسے ہی جرمنی سے تعلق رکھنے والی ڈی جی میوزک سبرینا ٹیرینس نے ڈی جی میوزک کی  خوبصورت پرفامنس کا آغاز کیا ، سکوت کے سمندر میں ہلچل کی لہریں بننی شروع ہوئیں اورمیرے ساتھ ساتھ ہرزندہ دل جوان جھوم جھوم اٹھا، ہم  موسیقی میں گم رقص کرتے، زندگی کی پریشانیوں کے پیچھے چھوڑآئے تھے۔

مختلف علاقوں اور  عقیدوں سے تعلق رکھنے والے فنکار وں نے  موسیقی کی دنیا میں  ہلچل مچا رکھی تھی۔  اسی طرح میوزک کے دلدادہ جوانوں نے بھی تعاصب کی ہر دیوار  گرا دی تھی۔ شانوں سے شانے ملائے ، ساتھ جھومتے، رقص کرتے ، قہقہے لگاتے ان نوجوانوں   نے پیغام دیا کہ پاکستان  کی نئی نسل متحدہے،  امن  سلامتی اور یکجہتی ہی  ان کی منزل ہے۔

وہاں وقت گزارا تو مجھے پتہ لگا کہ صوفی میلے میں مٹی سے بنے  ” بوڑیندو” ، “تنبورو”،  “باجو”،  “چپتارو” اور دیگر قدیمی موسیقی آلات  اوران سےبرسوں سے وابستہ موسیقاروں کو بھی مدوع کیا جاتا ہے۔ موسیقی کے  یہ نایاب آلات اب  پاکستان سے ناپید ہوتے جارہے ہیں، ان کو بجانے والے فنکار بھی  چند ہی رہ گئے ہیں لیکن  اب ان آلات کو بجانے کا ہنر رکھنے والوں نے اس ثقافتی میلے کے ذریعے اپنے شاگر بھی پیدا کرلیے ہیں۔

آج  اس  میلے  میں وہ فنکار جو سندھ کے قدیم درگاہوں پر بیٹھ کر صوفی کلام گاتے تھے ، ان کو بھی گانے کا موقع فراہم کیا جاتا ہے۔  اس عمل سے صوفی موسیقی کو فروغ ملنے کے ساتھ ساتھ ان صوفی فنکاروں کو بھی پذیرائی مل رہی ہے۔ لاہوتی میلا جہاں لوک موسیقاروں اور گلوکاروں کے لیے امید کی کرن ہے  وہیں  نوجوان نسل کے لیے پاکستان کی خوبصورت ثقافت سے جڑے رہنے کا ذریعہ  بھی ہے۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *