میں افراتفری سے بھرے اس شہر میں پیدا ہوئی اور یہیں پرورش پائی ۔ اس کی ہلچل سے بھری سڑکیں، مصروف لوگ اور خوبصورت میراث نے مجھے ہمیشہ ہی مسحور کیے رکھا۔ سال بہ سال، جیسے جیسے میں بڑی ہوتی گئی، میں نے دیکھا کہ کراچی مختلف وجوہات کی بناء پر اپنی خوبصورتی کھو رہا ہے، بنیادی طور پر اس کا تعمیراتی ورثہ۔ جب بھی میں پرانے شہر کے قلب میں واقع اپنی یونیورسٹی کے راستے پر سفر کرتی ہوں، میں اس شہر کے شاندار ماضی اور افسوسناک حال کے درمیان واضح فرق پر غور کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کرپاتی۔
کراچی کو فنِ تعمیر کے وسیع خزانے سے نوازا گیا ہے لیکن افسوس کہ اس خزانے کا بڑا حصہ عدم توجہی اور بے حسی کی وجہ سے ضائع ہو چکا ہے۔ کراچی کی شاندار عمارتیں اس کی تاریخی عظمت کی عکاسی کرتی ہیں ۔ کراچی کا تعمیراتی منظر نامہ ، نئی آبادیوں اور طرزِتعمیر سے لے کر انڈو اسلامک شاہکاروں تک دیکھنے والا ہے۔ تاہم، جیسے جیسے شہر نے جدیدیت کو اپنایا، ان خزانوں کے نشان مٹنے لگے۔ کئی دہائیوں کی غفلت اور بے حسی نے کراچی کے تعمیراتی ورثے کو ناقابلِ معافی نقصان پہنچایا ہے۔ یہ لاوارث ڈھانچے، جو کبھی فخر اور شناخت کی علامت تھے، اب ان کی شان و شوکت مدھم پڑ چکی ہے اور یہ بوسیدہ حالت میں کھڑے ہیں۔
ان گمشدہ خزانوں میں شاندار فریئر ہال ہے، جو کہ فن تعمیر کا قیمتی ورثہ ہے۔ یہ برطانوی راج کے دوران لائبریری اور ٹاؤن ہال کے طور پر استعمال ہوا کرتا تھا اور آج، یہ شہر کے شاندار ماضی کی یاد دلاتا ہے ۔اسی دور کا ایک اور تعمیراتی ورثہ، ڈینسو ہال اور لائنریری بھی بدلتے وقت کا خاموش گواہ ہے، 1886 میں صدر کے علاقے میں تعمیر کی گئی یہ ایک شاندار عمارت تھی، جو اب لاوارث پڑی ہے، اور آہستہ آہستہ خراب ہوتی جارہی ہے۔
گرد و غبار سے بھرے صدر کے علاقے میں خاموشی سے کھڑی ایمپریس مارکیٹ کی شاندار عمارت اب اپنی تباہ حالت پر نوحہ کناں نظر آتی ہے ۔ ایمپریس مارکیٹ آج بھی لوگوں سے بھری نظر آتی ہے لیکن آس پاس موجود ٹھیلوں اور ناجائز بنی دکانوں نے اس کا حسن بھی ماند کر رکھا ہے۔ اس طرح آؤٹرم روڈ پر واقع تقسیم ِ ہند سے قبل کی عمارت کو 1995 میں ہیریٹیج سائٹ قرار دیا گیا تھا، مگر کچھ برسوں بعد ہی بلڈرز نے اسے تھوڑا تھوڑا گرانا شروع کر دیا۔ آج اس تعمیراتی خزانے کا جو کچھ بچا ہے وہ صرف سامنے کی دیواریں ہیں۔ ایک اور یادرگار میری ویدر کلاک ٹاور ہے ۔ یہ بھی انتظامیہ کی نظر اندازی کا شکار ہے
یہ وہ عمارتیں ہیں جو پاکستان کی نئی نسل کو کراچی کی شاندار تاریخ کی جھلکیاں دکھاتی ہیں۔ ان میں سے کئی عمارتوں میں یا تو نجی دفاتر کھلے ہوئے ہیں یا پھر ان کو کمرشل مارکیٹ میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ آج تاریخی ورثے کے مالکان ان کو بیچنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں کیونکہ اب ان کی قیمتیں بہت زیادہ بڑھ چکی ہیں ۔ دوسری جانب لینڈ مافیا نے بھی ایسی تاریخی عمارتوں پر نظریں گاڑرکھی ہیں تاکہ وہ ان کی جگہ جدید عمارتیں اور پلازے بنا کر پیسے بنا سکیں۔
کراچی کے تعمیراتی ورثے کو حقیقی معنوں میں واپس لانے کے لیے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے اور حکومتی اداروں، ثقافتی ورثہ کے تحفظ کے ماہرین، معماروں اور عام لوگوں کو ان آرکیٹیکچرل عجائبات کی حفاظت اور بحالی کے لیے اکٹھا ہونا پڑے گا۔ خوش قسمتی سے،ابھی ایسے افراد اور تنظیمیں موجود ہیں جو کراچی کے تعمیراتی ورثے کی اہمیت کو سمجھتے ہیں اور اسے بچانے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ مختلف مہمات کے ذریعے یہ انتظامیہ اور عوام میں شعور اور بیداری پیدا کر رہے ہیں ۔ اور انہیں عام آدمی اور حکام سے یکساں تعاون حاصل ہورہا ہے۔
۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کہ ہم متحد ہو کر کراچی کے تعمیراتی ورثے کو بحالی کے راستے پر لے چلیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ ماضی کی مٹتی سرگوشیاں ، آنے والی نسلوں تک گونجتی رہیں۔
1 Comment
Well done