سندھ کے حسینی ہندو اور محرم

معذوری کو طاقت بنانے والا پاکستانی نوجوان
July 27, 2023
سندھ ہندو شادی قوانین پر عملدرآمد میں حائل رکاوٹیں اورخواتین کی مشکلات
July 31, 2023

    (اشوک رامانی)

جیسے ہی محرم کا چاند نظر آتا ہے، حیدرآباد میں جامشورو روڈ پہ آباد گاؤں کولہی گوٹھ میں آباد ہندو مرد، خواتین اور بچے خاص قسم کے کھولنے بنانے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ یہ تمام تر تیاریاں چھ ماہ قبل شروع ہو جاتی ہیں مگر محرم کے دنوں میں اپنے عروج پہ ہوتی ہیں۔ کیوں کہ ان کو یہ منفرد کھلونے محرم کی 8 تاریخ تک مارکیٹ میں پہنچانے ہوتےہیں۔ انہیں یہ اشیاء بیچنے کا خاصہ تجربہ ہو چکا ہے لہٰذا وہ انہیں ریڑھوں پہ لاد کر حیدرآباد شہر میں نکلتے ہیں۔

کولہی گوٹھ کی زمین ذوالفقار علی بھٹو کے پہلے دور حکومت میں ان لوگوں کو دی گئی تھی، جسے بھٹو کالونی بھی کہا جاتا ہے۔ یہ کالونی سو گھروں پہ مشتمل ہےجہاں کولہی برادری کا ہندو قبیلہ آباد ہے۔ یہ ان کا مستقل کام نہیں ہے بلکہ موسمی کاروبار ہے۔ دراصل یہ لوگ مستقل طور سبزی فروش ہیں، جو منڈی سے سبزی خرید کر ریڑھوں پہ بیچتے ہیں۔ سبزی کے کاروبار سے جو آمدن ہوتی ہے اسی سے اپنے گھر وں کے معاملات چلاتے ہیں۔
پینتیس سالہ لونگ تین بچوں کا باپ ہے، جو ایک سبزی فروش ہے مگر محرم کے مہینے میں وہ بھی لکڑیوں سے کھلونے بنانے کا کام شروع کردیتا ہے۔ یہ کچھ خاص کھلونے ہوتے ہیں، جو کہ میدان کربلا کی یاد دلاتے ہیں مثلاً ڈھول، تلوار، تعزیے، تیر کمان اور کلہاڑیاں وغیرہ۔

“میں اپنے دادا کے زمانے سے یہ کام کرتا آ رہا ہوں، اس کے بعد یہ کام میرے والد کیا کرتے تھے، جنہوں نے مجھے سکھایا۔ آج اس کام کو میں کر رہا ہوں اور کل میرا بیٹا بھی یہ کام کرے گا”۔

لونگ ہر سال کی طرح پچاس ہزار روپے تک اس کام پہ لگاتا ہے، ان کھلونوں کو تیار کرنے کے لیے خام مال حیدرآباد کی چھوٹکی گھٹی سے لاتا ہے۔

”اس کام میں اتنی بچت نہیں ہے مگر پھر بھی ہم ہر سال کی طرح یہ کھلونے تیار کرتے ہیں۔ اگر میں ایک ڈھول 100 روپے میں بیچتا ہوں تو مجھے 10 سے 15 روپے کی بچت ہوتی ہے۔لیکن ہمارا یہ کام سالوں سے چلا آ رہا ہے اس لیے میں بھی ان دنوں میں کام کر لیتا ہوں۔ اب مہنگائی بڑھ گئی ہے، اس لیے کام میں پہلے جیسا مزہ نہیں رہا ہے۔ کیوں کہ خریدار کم ہو گئے ہیں، اس کے علاوہ ہماری پوری بستی یہ کھولنے بناتی ہے، یہاں ایسا کوئی گھر نہیں ہے جو یہ کام نہ کرتا ہو”۔

آج لونگ کو اپنے ناخواندہ ہونے کا دکھ ہے، وہ اپنے بچوں کو پڑھانا چاہتا ہے لیکن گاؤں کے اسکول پر قبضہ ہو جانے کے بعد لونگ اپنے بچوں کو اسکول بھی نہیں بھیج سکتا۔ اسکی خواہش ہے کہ اس کے بچے تعلیم حاصل کر سکیں مگر بستی میں نہ تو لڑکیاں اسکول جاتی ہیں اور نہ ہی لڑکوں کے لیے کوئی قریبی اسکول موجود ہے۔

چالیس سالہ سمی کولہی کی بھی ایسی ہی کہانی ہے جواسی کالونی میں کرائے کے ایک مکان میں رہتی ہیں۔ چھ بچوں۔۔ گھر کے کرائے اور زندگی کی گاڑی کھینچنے میں اپنے سبزی فروش شوہر کا ساتھ نبھا رہی ہے۔ سمی گھروں میں کام کرتی ہے مگر محرم کے مہینے میں وہ بھی کھلونے بنانے میں مصروف ہوجاتی ہے۔

سمی کا کہنا ہے”مجھے اس کام میں کوئی خاص بچت نہیں ہوتی ہے لیکن برسوں سے ہم یہ کام کرتے آ رہے ہیں اس لیے ہر سال میں کھولنے بنا کر مارکیٹ میں اپنے شوہر کے ساتھ بیچتی ہوں۔ اگر میں چالیس ہزار کا مال تیار کرتی ہوں تو مجھے سات ہزار تک بچت ہو جاتی ہے اور یہ پیسا میں اپنے گھر میں خرچ کرتی ہوں”۔

لونگ کی طرح سمی کے بچے بھی اسکول سے محروم ہیں، وہ چاہتی ہیں کہ اس کے بچے علم حاصل کریں مگر اب تک کسی بچے نے اسکول کا دروازہ نہیں دیکھا ہے۔سمی کا کہنا ہے کہ اسے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت جو پیسے ملتے تھے وہ بھی اب بائیو میٹرک ویریفکیشن نہ ہونے کی بنا ہر بند ہوگئے ہیں ۔

بچوں کی تعلیم کے علاوہ بھی کولہی گوٹھ کے بہت سے مسائل ہیں۔ کچی گلیاں ۔۔ جو بارشوں میں جوہڑ کا منظر پیش کرتی ہیں، گھروں میں بھی پانی آجاتا ہے۔ یہ غریب طبقہ چاہتا ہےکہ ان کے حالات بہتر ہوجائیں اور بستی میں وہ سہولیات میسرہوں جو حیدرآباد میں دیگر کالونیوں کو میسر ہیں۔

حیدرآباد کی پیون کالونی میں ہندوؤں کا باگڑی قبیلہ بھی یہی کھلونے بناتا ہے۔ ماضی میں باگڑی قبیلے کی عورتیں بھیک مانگا کرتی تھیں لیکن اب انہوں نے اپنا لوہا کاروبار میں منوا لیا ہے۔ اب ان کے مرد اور عورتیں کاروبار کرکے اپنا گزر بسر کرتے ہیں۔

جب مارکیٹ میں ان کے بنائے ہوئے کھلونے پہنچتے ہیں تو ننھے خریدار بھی آنے لگتے ہیں یعنی خریداروں میں زیادہ تر بچے ہوتے ہیں۔

حیدرآباد کے سرکاری اسکول کی استانی فہمیدہ جروار ہر سال اپنے بچوں کے لیے ان حسینی ہندووں سے کھلونے خرید کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ محرم الحرام میں لکڑیوں کے بنائے ہوئے کھلونے بچوں کو بہت اچھے لگتے ہیں اور یہ بچوں کے لیے ایک بہت اچھی تفریح ہے۔ حیدرآباد کے ایک اور رہائشی احمد علی ۔۔باگڑی قبیلے کے پڑوسی ۔۔۔ اور ان کھلونوں کے خریدار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کھلونوں کی سب سی اچھی بات یہ ہے کہ یہ مہنگے نہیں ہیں۔ بچوں کا دل بہل جاتا ہے اور بیچنے والوں کو بھی مالی فائدہ ہو جاتا ہے۔

محرم کے ماہ میں کولہی قبیلے کے یہ لوگ اپنا پیٹ پالنے کے لیے سڑکوں پہ تمام تر تیار کردہ اشیاء کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ جو نہ صرف سندھ کے مذھبی راواداری کے کلچر میں اپہنا حسہ ڈالتے ہیں ۔۔۔ بلکہ اسے پروان چڑھانے میں امام حسین سے ان کی عقیدت بھی شامل ہوتی ہے ۔ ۔۔ مگر ان کے ساتھ جڑے مسائل کو حل کرنے ۔، عزت سے کاروبار کرنے اور ان کے بچوں کا مستقبل بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ ان کی آنے والے نسلیں صرف کولہی کالونی تک محدود نہ ہوجائیں۔

15 Comments

  1. Deen Muhammad says:

    Good

  2. Sajid khan says:

    Bhtreen knowledge

  3. niyaz vigi says:

    2 good dear

  4. aijaz laghari says:

    2 good dear Ashok Ramani

  5. MOHD ASLAM BUGHIO says:

    Good story

  6. Hafeez Magsi says:

    اشوک رامانی صاحب بہت ہی پیاری اسٹوری بنائی ہے اور امید کرتے ہیں کہ آئندہ بھی اپنے پڑھنے والوں کو اچھی اسٹوریز فراہم کریں گے۔

  7. imtiaz says:

    Ramani Sahib bohat hi alla keep it up.

  8. Khadim Chandio says:

    Good luck dear

  9. Mendharo Kajhervi says:

    یہ محنت کش لوگ جو اپنے بل پے کھڑے ہیں ورنہ ہماری سوسائٹی کے لوگ اور سرداروں نے پیچھے دھکیلنے میں کمی کہاں چھوڑی ہے۔

  10. Sardar Waris khaskheli says:

    Haq haq Ramani

  11. aijaz chandio says:

    sindh ki rawadari khobsort h

  12. Aijaz khoso says:

    That’s great

  13. Fazil channa says:

    Haq dear

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *