26 سالہ مینا بائی اور 28 سالہ پرکاش کی شادی تقریباً ڈیڑھ برس قبل ہوئی تھی مگر تا حال ان کے پاس شادی کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے یہ دونوں افراد ٹنڈو محمد خان کے گاوں لغاری واہ کے مکین ہیں۔ پنڈت نے اس ہندو جوڑے کی شادی تو کروا دی مگر وہ پنڈت خود کسی یونین کونسل میں رجسٹرڈ نہیں تھے اسی لئے مینا اور پرکاش کو میرج سرٹیفکیٹ بھی جاری نہیں کیا گیا۔ حال ہی میں اس جوڑے کے ہاں بیٹے کی ولادت ہوئی ہے لیکن مشکلات کا راستہ کچھ اور لمبا ہوا جب ننھے بچے کا برتھ سرٹیفکیٹ بنوانے میں کئی رکاوٹیں کھڑی ہو گئیں۔ مینا بائی کے پاس شادی کا کوئی ثبوت نہیں ہے اس لئے وہ نادرا سے اپنے خاوند کے نام سے منسوب قومی شناختی کارڈ نہیں بنوا سکی اور نہ ہی بچے کا برتھ سرٹیفکیٹ ۔ اور مشکلات کی یہ راہ مزید طویل ہوگی جب ان کے بیٹے کو اسکول میں داخلہ کا مرحلہ درپیش ہو گا ۔۔۔
یہ کہانی فقط مینا بائی کی نہیں ہے بلکہ سندھ میں ایسی اِن گنت ہندو خواتین ہیں جو ہندوؤں کی شادی کے قانون یعنی سندھ ہندو میرج ایکٹ 2018ع پر عمل درآمد نہ ہونے کے باعث شدید مسائل سے دوچار ہیں۔
ہندو میرج بل 2018
سندھ اسمبلی نے 2016 میں ہندو میرج بل پاس کیا ۔ دو سال بعد اس قانون میں ترمیم کی گئی اور سندھ ہندو میرج ترمیمی ایکٹ 2018 وجود میں آیا۔ قیام پاکستان کے بعد سندھ میں آباد ہندو کمیونٹی کے لیے پہلی بار یہ قانون بنایا گیا جس کے تحت ہندو برادریوں کی شادیاں رجسٹر ہوں سکیں گی اور ان کو قانونی تحفظ حاصل ہو گا۔
اس قانون کے مطابق ہندو جوڑے کی شادی پیتالیس دن میں رجسٹرڈ کروانا لازمی ہے۔ نہ صرف موجودہ وقت میں ہونے والی شادیاں بلکہ اس قانون بننے سے قبل جو شادیاں ہو چکی ہیں وہ بھی اس قانون کے تحت رجسٹرڈ ہوں گی۔ اس قانون کے مطابق ہر یونین کونسل میں دو پنڈت رجسٹرڈ ہو سکتے ہیں اور رجسٹرڈ پنڈت ہی ہندو جوڑے کی شادی کروا سکیں گے اور اس جوڑے کو شادی سرٹیفکیٹ جاری کرنے کے مجاز ہوں گے۔ بعینہ ایسے جیسے مسلمانوں میں نکاح رجسٹرار یونین کونسل میں رجسٹرڈ ہوتا ہے ۔ جو نکاح پڑھانے کا اختیار رکھتا ہے ۔ اور اسکی طرف سے جاری کردہ نکاح نامے کو قانونی حیثیت حاصل ہوتی ہے ۔
خواتین اور ہندو میرج بل 2018
سندھ ہندو میرج ایکٹ 2018 سے ہندو خواتین کو اور بھی کئی فائدے حاصل ہوئے ہیں، مثال کے طور پر اس قانون سے ہندو برادریوں میں کم عمر کی شادیوں کی روک تھام ممکن ہوگی کیوں کہ اس قانون کے مطابق شادی کیلئے ہندو لڑکی کی عمر کم سے کم 18 برس لازمی قرار دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ سندھ میں رہنے والی ہندو خواتین کو پہلی بار دوسری شادی کا حق دیا گیا ہے، اسی طرح اس قانون کے ذریعے ہندو عورت کو اپنے شوہر سے خلع لینے کا حق بھی حاصل ہو گیا ہے، جو کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے۔
ہندو میرج بل 2018پر عملدرآمد سست روی کا شکار
سندھ ہندو میرج ایکٹ کے تحت پنڈتوں کی رجسٹریشن کا اعلان کیے برسوں بیت گئے لیکن تاحال پنڈتوں کی رجسٹریشن عمل سست روی کا شکار ہے بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے، جس سے ہندو میرج ایکٹ 2018پر عمل درآمد کے سلسلے میں مختلف پیچیدگیوں اور رکاوٹوں کا سامنا ہے۔
اس قانون کو بنے چار برس سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے مگر ابھی تک ہندو آبادی کی اکثریت اس سے بے خبر ہے۔ عوام کے ساتھ ساتھ اس قانون کے بارے میں پنڈتوں کی اکثریت کو بھی اس بارے میں معلومات نہیں ہے۔ اس کے علاوہ سندھ لوکل گورنمنٹ کے افسران جن کو پنڈتوں کی رجسٹریشن کی ذمہ داری سونپی گئی ہے وہ بھی زیادہ تر اس قانون کے مختلف نکات سے بے خبرہیں۔
ڈائریکٹر لوکل گورنمنٹ حیدر آباد ڈویژن عبید اللہ صدیقی ہندو میرج ایکٹ کے تحت شادیوں کی رجسٹریشن نہ ہونے کی اہم وجہ اس قانون کی تشہیر نہ کرنے کو قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ “یونین کونسلز کے سیکریٹریز، پنڈتوں اور ہندو پنچائتوں کے رہنمائوں کے مشترکہ اجلاس منعقد کروائے جائیں اور ان تمام فریقین کو اس قانون کے متعلق آگاہی فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی اس قانون پر عمل درآمد کے سلسلے میں رہنمائی کی جائے”۔ انکا مزید کہنا ہے کہ “ہمارے افسران تو انتظار میں ہیں مگر ہندو پنڈت اپنی رجسٹریشن کے لئے نہیں آ رہے، اگر پنڈت خود رجسٹرڈ نہیں ہونگے تو کمیونٹی کی شادیاں بھی رجسٹر نہیں ہو سکیں گی۔ ”
ہندو میرج بل 2018اور پنڈتوں کا موقف
دوسری جانب پنڈت حضرات کی رائے کچھ مختلف نظر آتی ہے۔ مہاراج کشور کمار سار سوت میرپورخاص کے رہائشی ہیں اور وہ عرصہ دراز سے ہندو کمیونٹی کی شادیاں کراتے آرہے ہی۔ ہندو میرج ایکٹ پر عمل درآمد میں سستی کے متعلق مہاراج کشور کچھ تحفظات رکھتے ہیں کہ سندھ میں قانون ایک ہے مگر پنڈتوں کی رجسٹریشن کی فیس مختلف اضلاع میں الگ الگ مقرر کی گئی ہے۔ میرپورخاص میں پنڈت کو رجسٹرڈ کرنے کی فیس پانچ ہزار روپے مختص کی گئی ہے جو کہ بہت زیادہ ہے، پنڈت بھاری فیس کے باعث رجسٹرڈ نہیں ہو رہے ہیں۔ اگر حکومت چاہتی ہے کہ اس قانون پر جلد سے جلد اور مکمل عمل ہو تو اس کے لئے سندھ کے تمام اضلاع میں یکساں اور کم سے کم فیس مقرر کرکے نوٹیفکیشن جاری کیا جانا چاہیئے۔
آگاہی مہم – ہندو میرج بل 2018 کی ضرورت
پشپا کماری سرگرم سماجی کارکن ہیں ، جوہندو میرج کے قانون میں سیاسی و حکومتی سطح پر لابنگ کرنے والے قومی وفد میں شامل رہی ہیں، ان کا ماننا ہے کہ سندھ ہندو میرج ایکٹ 2018 ایک اچھا قانون ہے جس سے ہندو خواتین کو بہت زیادہ فائدہ ہے لیکن اس قانون پر اس کی اصل روح کے مطابق عمل ہونا لازمی ہے، دیکھا یہ گیا ہے کہ اس قانون کی تشہیر نہیں کی گئی جس کی وجہ سے سندھ کی ہندو کمیونٹی اس قانون سے بے خبر ہے، ہندو خواتین کی اکثریت غیر تعلیم یافتہ ہے اس لئے ان کو اس قانون کے متعلق آگاہی مردوں کی نسبت بہت کم ہے۔ پشپا کماری نے زور دیا کہ حکومتی سطح پر با ضابطہ پالیسی بنائی جائے اور میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے سندھ میں تشہیری مہم کا آغاز کرکے ہندو میرج ایکٹ کے نقاد کو فوکس کیا جا سکتا ہے۔
ایم پرکاش ۔۔ سینیئر وکیل اور ہندو پنچائت حیدر آباد کے رہنما ہیں، ان کے مطابق سندھ ہندو میرج ایکٹ 2018پر عملدرآمد ایک بڑا چیلینج ہے۔ ایم پرکاش کا کہنا ہے کہ پہلے مرحلے میں سندھ حکومت کوشش کرکے لوکل گورنمنٹ ڈپارٹمینٹ کے متعلقہ افسران کو تربیت فراہم کرے تاکہ وہ پنڈتوں کی رجسٹریشن میں تاخیری حربوں اور ٹال مٹول سے کام نہ لیں، اس کے بعد ہندو پنڈتوں کے ساتھ آگاہی نشستوں کا انعقاد کیا جائے اور ان کو رہنمائی فراہم کی جائے تو ان اقدامات کے نتیجے میں کچھ بہتری آسکتی ہے۔
2023کی مردم شماری کے مطابق سندھ میں 41 لاکھ سے زائد ہندو آبادی ہے جبکہ پاکستان ہندو کونسل کا دعوی ہے کہ سندھ میں 50 لاکھ سے زائد ہندو کمیونٹی آبادہے۔ قیام پاکستان کےبعد سے ہندو برادری کیلئے کوئی فیملی قوانین موجود نہ تھے جس کے باعث ہندو مذہب کے لوگ اپنے قانونی حقوق سے محروم تھے۔ لیکن سندھ ہندو میرج ایکٹ 2018کی منظور ی کے بعد ہندو کمیونٹی بالخصوص ہندو خواتین کے مسائل میں خاطر خواہ کمی آسکتی ہے ۔