سندھ میں جبری مذہبی تبدیلی کے واقعات کیسے تھم سکتے ہیں؟

صاف ستھرے کراچی کا خواب کیسے پورا ہوگا؟
August 17, 2023
چھوٹے سے شہر میں دفن بڑی تاریخ
August 22, 2023

سندھ میں جبری مذہبی تبدیلی کے واقعات کیسے تھم سکتے ہیں؟

   (اشوک رامانی)

حیدرآباد کی  ستائیس سالہ چاندنی میگھواڑچھ  ماہ قبل اغوا ہوئی۔ ان کی بھائی ونود کمار کے مطابق  میری بہن کو ماتلی کے گاؤں جاڑکی کے باسی حمیر اور جمشید نے اغوا کیا،جس کے بعد ہم حالی روڈ تھانہ گئے مگر اغوا کا کیس داخل نہیں ہوا۔ چھ ماہ  بعد بہن وہاں سے بھاگ کر واپس آ گئی اور ہم پھر حالی روڈ تھانے گئے  لیکن درخواست دینے کے باوجود اغوا کاروں کے خلاف کوئی بھی کارروائی نہیں کی گئی اور نہ ہی ایف آئی آر درج ہوئی ۔ستمبر 2022 کو  چاندنی  کی جانب سے حیدرآباد کی عدالت میں  پٹیشن داخل  کی گئی اور عدالت سے درخواست کی گئی کے جوابداروں کے خلاف اغوا کی ایف آئی آر داخل کی جائےمگر ابھی تک کوئی عدالتی کارروائی عمل میں نہیں آئی

سندھ میں ہندو لڑکیوں کے اغوا اور جبری مذہبی تبدیلی کے واقعات کم ہونے کے بجائے بڑھ رہے ہیں۔سندھی میڈیا رپورٹ کے اعداد و شمار کے مطابق سال 2021 میں  جبری  مذہب تبدیلی کے اٹھائیس کیسز رپورٹ ہوئے جبکہ سال 2022 میں اکیس کیسز منظر عام پر آئے ۔ اس کے علاوہ 2023 میں اب تک 45 کے قریب کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں۔

حال ہی میں سندھ میں گڈی کولہی کا کیس بھی نیوز میڈیا کی زینت بنا رہا ہے۔ چیلہار( تھرپارکر)سے تعلق رکھنے والی 15سالہ گڈی کی  وڈیو فروری 2023 میں  منظرِ عام پر آئی اور سوشل میڈیا  وائرل ہوئی۔اس  میں وہ کہہ رہی تھی کہ اسے نہ تو کلمہ آتا ہے اور نہ ہی نماز پڑھ سکتی ہے پھر وہ مسلمان کیسے ہو گئی؟ اپنے اغوا ہونے اور زنجیروں میں جکڑے جانے کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہتی ہے کہ اس پہ تشدد کیا گیا، موقع پاتے ہی وہ وہاں سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئی۔ دوسری جانب، گڈی  کی عمر سے کئی سال بڑےضلع تھرپارکر سے ہی تعلق رکھنے والے رستم جونیجونے اس کے لیےاپنی بیوی ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔

گڈی کے اغوا کا واقعہ ایک سال قبل 2022 میں پیش آیا تھا، جب گڈی اپنی  ماں سیتا  کے ساتھ  بکھو گاؤں سے کچھ دور ہی لکڑیاں چننے گئی تھی۔ رستم اور اس کے ساتھیوں نے گاؤں قاسم کی ڈھانی کے قریب جیپ میں گڈی کو اغوا کرلیا۔ بیٹی کے اغوا کے بعد سیتا نے کوئی رپورٹ  تو درج نہیں کروائی مگر اس نے گاؤں کے زمیندار سجن جونیجو اور میر جونیجو کے آگے فریاد ضرور کی کہ اس کی بیٹی کو واپس سیتا کے حوالے کیا جائے۔ گڈی کا کہنا ہے کہ “آج بھی رستم جونیجو اور اس کے ساتھی دھمکیاں دے رہے ہیں کہ گڈی کو ان حوالے کیا جائے  اور اس کے عوض 20 ہزار روپے اور آدھا من آٹا لے لیں، نہیں تو اچھا نہیں ہوگا۔ میں انصاف چاہتی ہوں، ہمیں عدالتوں سے انصاف کی امید ہے مگر بااثر لوگوں نے ہمارا جینا اجیرن کر دیا ہے”۔گڈی مزید کہتی  ہے، “میں رستم کے ہاں واپس نہیں جانا چاہتی ہوں۔ میں نے اپنا مذہب تبدیل نہیں کیا ہے۔رستم نے مجھے تقریبا 12 ماہ تک قید رکھا اور زیادتی کرتا رہا۔ میں انصاف کے لیے لڑ رہی ہوں، اپنے حق کی بات کررہی ہوں تاکہ رستم کو  سزاملے۔ میں خود سے ہونی والی ناانصافی کے خلاف اکیلی بھی لڑوں گی مگر میرے ساتھ میرے والدین کھڑے ہیں۔جب سے میں واپس لوٹی ہوں تب سے مجھے بااثر افراد کی طرف سے دھمکیاں مل رہی ہیں مگر میں پیچھے نہیں ہٹوں گی۔”

گڈی کیس کے مرکزی ملزم رستم جونیجو اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کو رد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہوں نے گڈی کو اغوا نہیں کیا بلکہ گڈی نے اپنی مرضی سے سامارو(ضلع عمرکوٹ) میں پیر سرہندی کے یہاں نکاح کیا، جہاں گڈی نے مذہب تبدیل کیا اور اس کا اسلامی نام امامت رکھا گیا۔شادی کے چند ماہ بعد سےگڈی کی ماں اور  ماموں گھر آیا کرتے تھے، جو اسے میرے خلاف بھڑکاتے تھے۔ جس کے بعد سے  گڈی مجھ سے خائف رہنے لگی اور بالآخر اس نے مجھے چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ گڈی نے مجھ سے اپنی مرضی  سے شادی کی ہے۔ میرے پاس گڈی کے مذہب تبدیل کرنے کی سند ہے۔ “

پرنٹ اور سوشل میڈیا پہ گڈی کیس پر سماجی تنظمیوں کی جانب سے کافی آوازیں اٹھائی گئیں ۔ دباؤ بڑھنے کی وجہ سے گڈی کی والدہ کی مدعیت میں مٹھی تھانے (ضلع تھرپارکر ) میں رستم جونیجو اور دیگر ساتھیوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے لیکن اس کیس میں ابھی تک کوئی گرفتاری عمل میں نہ آ سکی ۔ ایف آئی آر میں نامزد رستم جونیجو، کامران جونیجو اور شمون جونیجو اس وقت ضمانت پہ ہیں۔

یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ جبری مذہبی تبدیلی سے متعلق قانون سازی میں کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ اس قانون پر 2021 سے بحث ہو رہی ہے اس قانون کا مسودہ پاکستان تحریک انصاف کے  رہنما رمیش کمار نے پیش کیا تھا۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی تجاویز کی روشنی میں پیش کیے جانے والے بل پہ کافی بحث کی گئی۔قومی اسمبلی میں آنے والے بل (بجٹ کے سوا) اسلامی نظریاتی کونسل میں بھیجے جاتے ہیں تاکہ ان کی تجاویز شامل کی جاسکیں۔اس بل کے حوالے سے کہا گیا کہ 18 سال میں شادی والی شق پہ اتفاق نہیں ہوسکا۔ اس حوالے سے منتخب نمائندگان نے اس بل پر اتفاق کیا مگر 17 ستمبر 2021  کو جب اس بل کے  کابینہ اور قومی اسمبلی میں منظور ہونے کا وقت آیاتو ماحول بل کے حق میں دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ وزارت مذہبی امور نے مطالبہ کیا کہ اس بل کو ایک بار پھر ہمارےپاس بھیجا جائے تاکہ اسلامی نظریاتی کونسل کا موقف لیا جائے جبکہ قانون کا مسودہ پر اسلامی نظریاتی کونسل اور وزارت مذہبی امور نظرثانی کر چکے تھے۔  یہ بل آج بھی  تک زیر التواءہے، اس کے بعد اسے پیش ہی نہیں کیا گیا۔

اس بل کے دیگر نکات میں سے دو اہم نکات یہ تھے کہ ہندو لڑکی کے لیے شادی کی عمر 18 سال مقرر کی جائے، دوسراطلاق کا قانونی عمل مکمل کیے بغیر دوسری شادی درج نہ کی جائے۔

دوسری جانب26 نومبر 2016  میں سندھ مائینارٹی پروٹیکشن ایکٹ  صوبائی اسمبلی سے متفقہ طور پہ  بل منظورکیا گیا ۔ اس قانون  کے مطابق جبری مذہب تبدیل کرکے شادی کرنا جرم سمجھا جائیگا۔ اس کے علاوہ اس نوعیت کے عمل میں ملوث پائے گئے شخص کو سات سال قید اور سہولت کار کو تین سے پانچ سال سزا دی جائے گی۔ مذہب تبدیل کرنے والے بالغ شخص کو 21 دنوں تک سیف ہاؤس میں رکھا جائے گا، 21 دنوں کی مدت پوری ہونے کے بعد اسے مذاہب کے بارے میں مواد فراہم کیا جائے گا اور متعلقہ شخص کو مذہب تبدیل کرنے سے قبل چند روز سوچنے کا موقع دیا جائے گا۔ لیکن یہ بل گورنر سندھ جسٹس (ر) سعیدالزمان صدیقی نے واپس کردیا تھا کیونکہ سندھ میں مذہبی تنظیموں کے احتجاج کے بعد وزیراعلیٰ نے درخواست  لکھ کر گورنر سے مسودہ واپس منگوا لیا تھا۔

اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ کے معاون برائے انسانی حقوق سریندر ولاسائی کا کہنا ہے کہ سندھ میں جبری تبدیلی مذہب کے بارے میں سندھ اسمبلی میں ایک بل پیش کیا گیا تھا، لیکن گورنر سندھ عمران اسماعیل نے اس پہ دستخط نہیں کیے جس کی وجہ سے بل پاس نہ ہوسکا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جبری تبدیلی مذہب کی قانون سازی کے معاملے پہ تمام تر سیاسی، سماجی اور مذہبی فریقین کو ساتھ بیٹھنا ہوگا۔

سندھ حکومت نے 2013میں دی سندھ چائلڈ میرجز ریسٹرینٹ ایکٹ کے ذریعےقانون سازی کی ہے کہ کسی بھی لڑکی کی شادی 18 سال کی عمر میں ہی ہوسکتی مگر جن لڑکیوں کے ساتھ مذہبی تبدیلی کے مسائل ہوتے ہیں ان میں سےزیادہ تر متاثرین کا تحریری  طور پہ عمر کا ریکارڈ موجود نہیں ہوتا۔

بدین کے باسی ایڈوکیٹ مکیش میگھواڑ ،جو اقلیتی وکیل رہنما ہیں، ان کا کہنا ہے کہ بدقسمتی سے ہمارے ہاں جبری تبدیلی مذہب کے خلاف کوئی بھی قانون موجود نہیں ہے اور نہ ہی آئینی طور پہ کوئی ایسی شق موجود ہے۔ سندھ حکومت نے ایک کوشش کی تھی، جسے مذہبی فریقین کے دباؤ کے بعد واپس لے لیا گیا۔ کوئی ٹھوس قانون نہ ہونے کی وجہ سے والدین اپنی بچیوں کے اغوا کے مقدمات درج نہیں کرواتے ہیں اور یہی موقف کیس کو مزید کمزور کرتا ہے۔ اس کے علاوہ لڑکیوں کی عمر کا تعین مشکل ہے، کیونکہ ان کے والدین کے پاس کوئی دستاویزی ثبوت موجود نہیں ہوتا۔

حیدرآباد کے رہنے والے سوشل ایکٹوسٹ شنکر میگھواڑ ہمیشہ جبری مذہب کی تبدیلی کے ہونے والے واقعات کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں۔ انہوں نے مذہب تبدیل کرے والوں کے سماجی اور ذہنی حالات پر تبصرہ کرت ہوئے کہتے ہیں کہ جبری طور مذہبی تبدیلی کی شکار فریقین ہمیشہ دباؤ میں رہتے ہیں۔ اور انہیں نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔پریشانی، عدم تحفظ اور تعلیم یافتہ نہ ہونے کی وجہ سے مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔لہٰذا وہ سماجی نظام میں خود کو بے بس سمجھتے ہیں۔

سینیٹر کرشنا کماری  نے بھی  ملک میں جبری مذہبی تبدیلی کے حوالے سے کوئی خاطر خواہ قانون سازی نہ ہونے کی طرف نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ اسی وجہ سے اقلیتوں کے اغواء ، جبری اور کم عمری کی شادیوں کے کیس سامنے آ رہے ہیں۔  اگر ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان میں موجود اقلیتیں محفوظ رہیں تو قانون سازی لازمی ہے۔ میں نے سینیٹ میں دیگر سینیٹرز کے ساتھ َمل کر آواز اٹھائی   ہے کہ  جبری مذہبی تبدیلی کے حوالے سے بل پاس کیا جائے تاکہ اقلیتوں کو تحفظ مل سکے۔  یہ معاملہ محض ہندو مذہب کا نہیں بلکہ دیگر مذاہب کا بھی ہے ۔

11 Comments

  1. Ashok Ramani says:

    Great

  2. Ashok Ramani says:

    Great stiory

  3. جانی خاصخیلی says:

    بہت ہی اہم رپورٹ
    سندھ کے اندر جبری مذھب تبدیلی کو روکا جائے

  4. mukesh kumar says:

    bhtreen bhai

  5. Hafeez says:

    Great story dear. Keep it up.

  6. Hafeez Magsi says:

    Great story dear. Keep it up.

  7. Sardar Waris khaskheli says:

    Save Sindhi Hindu girls

  8. aijaz chandio says:

    jabri mahab tabdeli na manzoor

  9. Aijaz khoso says:

    Shame on Pir sardandi and Miyan mitho

  10. Fazil channa says:

    Nice story

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *