چھوٹے سے شہر میں دفن بڑی تاریخ

سندھ میں جبری مذہبی تبدیلی کے واقعات کیسے تھم سکتے ہیں؟
August 18, 2023
کراچی میں چُھپا قدیم خزانہ
August 25, 2023

چھوٹے سے شہر میں دفن بڑی تاریخ

       (نمرہ اکرام)

 

پاکستان میں بہت قدیم اورتاریخی شہر موجود ہیں لیکن صوبہ پنجاب میں ایک ایسا شہر بھی ہے جو تقریبا  دو ہزار چار سو سال پرانا ہے ۔  اس کے بارے میں دعویٰ  بھی کیا جاتا ہے کہ یہ علاقہ 500 قبلِ مسیح سے یہاں موجود ہے۔  یہ ہےدریائے جہلم کے دونوں کنارو  ں پہ آ باد بھیرہ شہر  ۔ اس شہر کی خاص پہچان  ہے یہاں موجود آٹھ دروازے  جو الگ الگ  اہمیت رکھتے ہیں۔ ان دروازوں میں سے کئی یا تو گزرے وقت کے ساتھ گِر گئے ہیں یا پھر گرنے والے ہیں۔

اس شہر کی تاریخ کافی دلچسپ ہے آئیے پہلے اس کی منفرد نام  پر نظر ڈال لیتے ہیں بھیرہ کے معنی  ہیں ایسی جگہ جہاں کوئی ڈرو خوف نہ ہو۔ یہ  شہر اپنی دستکاری اور لوہے کے برتن ،تلوار سازی، لکڑی کا فرنیچر، برتن سازی کی وجہ سے کافی مشہور ہوا کرتا تھا اس شہر کے کاریگر دنیا بھر میں جایا کرتے تھے اور اب یہاں کے باسیوں کا پیشہ  زراعت  ہے۔بھیرہ شہر علم و حکمت کا گہوارہ  تھا  ۔  اس شہر میں موجود تاریخی جگہیں اس بات کا ثبوت دیتی ہیں کہ یہاں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ مل کر امن و سکون سے بغیر کسی رنگ و نسل کی تفریق رہا کرتے تھے۔یہاں کے محلوں میں مختلف مذاہب کی تعمیرات آج بھی ملتی ہیں، جن میں مساجد، مندر، گرودوارے اور حویلیاں موجود ہیں۔

جامع مسجد کا فضائی منظر

دریائے جہلم کے مغرب میں  خوشحالی اور امن کا گہوارہ بننے  والا  یہ شہر  1545 میں پٹھانوں اور مغلوں کے درمیان جنگ کے دوران تباہ ہو گیا ۔ تباہ ہونے کے بعد اس شہر کی جغرافیائی اہمیت کی بنا پر شیر شاہ سوری نے اس شہر کو دوبارہ  سولہویں صدی میں دریائے جہلم کے مشرقی جانب آباد کیا تاکہ اسے گزرنے والی افواج کے حملوں سے بچایا جا سکے۔ اس کے بعد یہاں ایک بہت  خوبصورت و شاندار جامع مسجد بھی تعمیر کروائی گئی جو آج بھی اپنی اصلی حالت میں موجود ہے اور یہ اس شہر کا تاریخی ورثہ بھی ہے۔

باؤلی والا مندر

تاریخ بتاتی ہے کہ مغلوں نے بھیرہ پر نو حملے کیے ۔ اس دوران انہوں نے یہاں کئی عمارتیں تعمیر کیں۔بھیرہ کی ایک  مسجد اپنے طرز تعمیر کے حوالے سے منفرد ہے۔ اسے شیخاں والی مسجد کہا جاتا ہے۔ یہ تین گنبدوں پر مشتمل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اسے شاہجہان کے دور میں پہلی مرتبہ بنایا گیا۔ اس کے علاوہ  محققین کے مطابق مسجد حافظانی  مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر نے تعمیر کروائی ۔اس مسجد کے مرکزی دروازے کے ساتھ حفاظتی  مقصد کے لیے بنائی گئی ایک   سرنگ  موجود ہے، جو ماضی میں اسے جامع مسجد سے ملاتی تھی۔ شہر کے گھروں کے نیچے  آج بھی   مختلف سرنگوں کے نشان موجود ہیں۔

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ  1941 تک یہاں کی  ہندو آبادی بیس ہزار افراد پر مشتمل  تھی۔ ان میں چوپڑہ اور سانی زیادہ تعداد میں تھے اور تجارت سے وابستہ تھے۔ اسی لیے ہندو اور سکھوں کے کئی  مندر اور گوردوارے بھی   نظر آتے  ہیں جس میں سے  کچھ اب بھی اپنی  اصلی حالت میں موجود ہیں۔ ہندوؤں کی واحد عبادت گاہ جوباؤلی والا مندر کہلاتی ہے شہر سے الگ تھلگ ایک پُرسکون مقام پر قائم ہے۔

مغل دور میں بادشاہ اکبر نے یہاں  اپنا دربار لگایا تھا وہیں ایک تالاب بھی تھا جسے آج” خونی چھیڑی “( خونی  تالاب)کہتےہیں۔اکبر نے اس تالاب کو خیرات کے سونے اور چاندی کے سکوں سے بھر دیا تھا۔ بعد میں لوگ  سونے کی تلاش میں اس تالاب  میں اترتے رہے اور جان گنواتے رہے اسی بنیاد پر  تالاب کا نام “خونی چھیڑی” پڑا۔

شہر کی ثقافت کو پاکستانیوں میں پھیلانے اور تاریخی نوادرات کو محفوظ کرنے کے لیے بھیرہ میں ہیریٹج میوزیم قائم کیا جا رہا ہے جس کے لیے جامع مسجد کے خطیب نے جگہ کی پیش کش کی ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ یہاں  موجود عظیم صوفی میراںشاہ کا مقبرہ، عہد مغلیہ کے نامی گرامی حکمران اورنگزیب عالم گیر  کی تعمیر کردہ حافظانی مسجد ، عہد مغلیہ کا ٹکسال اور دیگر تاریخی مقامات جیسے پرانا بھیرہ سیاحوں کی دلچسپی کا باعث بن سکتے ہیں۔

آج  بھی آپ کو جامع  مسجد کی دیوار پر آنے والوں  کے نام ایک پیغام  لکھا ملتا ہے “اس شہر کی عزت اس کی تاریخ سے ہے جس کی عظیم اور قدیم داستانیں اس مسجد کی ایک ایک اینٹ میں دفن ہیں۔ اگر آپ نے ان یادگاروں کو پس پشت ڈال دیا تو تاریخ آپ کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *