ایک ایسے معاشرے میں جہاں عورت ذات ، معاشی ناہمواریوں ، گھریلو تشدد ، مذہبی تعصب اورعدم تحفظ کا شکارہیں، ایسے ماحول میں اکیس سالہ تلسی میگھواڑ تمام تر رکاوٹوں اور روایتوں کو توڑ کر کھیل کے میدان میں اپنا لوہا منوا رہی ہیں۔
تلسی میگھواڑ کا تعلق ضلع جامشورو کے شہر کوٹری سےہے۔ ابھی وہ اسکول میں پڑھائی کر رہی تھیں کہ ایک روز سافٹ و بیس بال کے ٹرائلز کے لیےصوبائی سطح کی ایک ٹیم آئی۔ تلسی نے اس ٹرائل کو پاس کیا اور کوٹڑی ہائی اسکول کی تین دیگر لڑکیوں کے ساتھ منتخب ہو گئیں جس کے بعد انہوں نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔
تلسی کے لیے وہ بڑی خوشی کا دن تھا جب 2016 میں پہلی بار ٹیم میں سلیکٹ ہونےپر اسے کٹ دی گئی۔ پھر کھیل کا میدان تھا، اور ان کی کامیابیوں کا تسلسل ۔۔۔ آج وہ صوبہ سندھ کی ایک بہترین کھلاڑی بن چکی ہیں۔
2016 میں نیشنل وومین بیس بال چیمپئن شپ کے مقابلوں میں تلسی نے پہلی پوزیشن حاصل کی۔ وہ اب تک 10 میڈل اور 8 شیلڈ جیت چکی ہیں۔
سافٹ و بیس بال پاکستان میں کوئی مقبول کھیل نہیں ہے لیکن تلسی نے نہ صرف اس کھیل کو چنا بلکہ اس کی اہمیت کو اجاگر بھی کیا ہے۔ تلسی اس کھیل میں ایک اچھی بیٹر کے طور پر مہارت رکھتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ “میرے لیے اس کھیل میں خود کو شامل کرنا ایک بڑی کامیابی تھی، کیونکہ ایک لڑکی کی حیثیت سے میرے لیے محدود مواقع ہیں۔ میں اپنے خاندان اور ہندو برادری کی پہلی ایسی لڑکی ہوں جس نے کھیل کے میدان میں اپنی ایک الگ پہچان بنائی ہے۔ آج جب میں کسی بھی مقابلے میں کوئی کامیابی حاصل کرتی ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ یہ کامیابی میرے والدین کی بھی کامیابی ہے جنہوں نے میرے قدم قدم پہ حوصلہ افزائی کی ہے”۔
تلسی کے ساتھ ہی کئی لڑکیاں سافٹ بال ٹیم کا حصہ بنیں تھیں مگر اب وہ کھیل چھوڑ چکی ہیں، ان کے کھیل چھوڑنے کی وجہ ان کے والدین کی جانب سے دباؤ یا پھر ازدواجی زندگی اختیار کرنا ہے۔ اس بارے میں تلسی کا کہنا ہے کہ “اس کھیل میں آپ کو مستقل مزاج ہونا لازمی ہے، اگر کھیل کے میدان میں ایک کھلاڑی کے طور پہ کارکردگی دکھانی ہےتو پھر آپ کو کھیل کو ترجیح دینا ہوگی۔ میرے ساتھ کئی لڑکیاں تھی، جو اب میری ٹیم کا حصہ نہیں ہیں۔ کیوں کہ ان کی ترجیحات بدل گئی ہیں”۔
تلسی کے والد ہرجی لعل نے بھی اپنی بیٹی کا ہر قدم پہ ساتھ دیا ہے۔ وہ مقامی صحافی ہیں اور کہتے ہیں کہ “جب میں اپنی بیٹیوں کو پڑھا رہا تھا تو میرے خاندان کے لوگوں نے طعنہ زنی کی۔ آج مجھے فخر محسوس ہوتا کہ میں ایک ایسی لڑکی کا والد ہوں جو آزادی سے کھیل کے میدان میں کھیل سکتی ہے اور اسے کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں نے اپنی بیٹی کو پڑھنے لکھنے اور کھیلنے کی آزادی دی ہے، جس کی وجہ سے وہ ایک آزاد فضا میں سانس لے سکتی ہے”۔
ہرجی لعل کھیلوں کے میدان کی کمی کی شکایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہمارے ملک میں کھیلوں کو اہمیت نہیں دی جاتی اس لیے کھیلوں کے میدان بھی نہیں ہیں۔ پاکستان میں صرف کرکٹ کو کھیل سمجھا جاتا ہے جبکہ دیگر کھیلوں کی جانب توجہ نہیں دی جاتی۔ سندھ میں لڑکیوں کے کھیل کے میدان نہ ہونے کے برابر ہیں۔ لہٰذا انہیں اپنی صلاحیت دکھانے اور منوانے کا موقع ہی نہیں مل پاتا۔ اگر یہاں کھیلوں کے میدان ہوں تو اور بھی زیادہ تعداد میں لڑکیاں کھیلوں کی طرف آسکتی ہیں۔ یہ حکومت اور وزارت کھیل کی ذمہ داری ہے کہ وہ کھیلوں کے میدان ہر شہر میں فراہم کریں”۔
تلسی اپنی صلاحیتوں کو بین الاقوامی سطح پہ لے جانا چاہتی ہیں۔ لیکن اب تک یہ ممکن نہیں ہوسکا۔ 2019 میں انہیں چین میں سافٹ بال چیمپیئن شپ میں حصہ لینے کا موقع ملا تھا مگر اس سال کورونا کی وبا پھوٹ پڑی، جس کی وجہ سے وہ مقابلے ملتوی ہوگئے اور چین جاکر کارکردگی دکھانے والا خواب ادھورا رہ گیا۔ مگر وہ مایوس نہیں ہیں، انہیں یقین ہے کہ وہ ایک دن عالمی سطح پہ ہونے والے مقابلوں میں ضرور حصہ لیں گی۔
تلسی تعلیم کو اہم سمجھتی ہیں مگر اپنے شوق کو بھی اہمیت دیتی ہیں جس کی وجہ سے آج انہیں سارا ملک پہچانتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ جب میدان میں ہوتی ہے تو انہیں اپنی برادری کی دیگر لڑکیوں سے آزادی کا زیادہ احساس ہوتا ہے۔ “میری برادری کی زیادہ تر لڑکیاں تعلیم یافتہ نہیں ہیں، وہ یا تو گھروں میں کام کرتی ہیں یا پھر کسی کارخانے میں مزدوری کر رہی ہیں۔ ان کے مقابلے میں، میں خود کو زیادہ خوش قسمت سمجھتی ہوں کہ میں تعلیم یافتہ ہوں اور ساتھ ساتھ کھیل کے میدان میں اپنا ٹیلنٹ دکھا رہی ہوں”۔
تلسی میگھواڑ کےانسٹرکٹر پرویز احمد شیخ اور عائشہ ارم کا کہنا ہے کہ کوٹری میں کھیلوں کے حوالے سے ہاکی، فٹبال، کرکٹ، باکسنگ، باڈی بلڈنگ، بیس بال و سافٹ بال میں مختلف کھلاڑی ملکی و بین الاقوامی سطح پر نام روشن کرچکے ہیں اور یہ سلسلہ بیس بال کے میدانوں میں تلسی میگھواڑ کی صورت میں اب بھی جاری ہے۔ ان کی اس کارکردگی کے پیچھے ان کے والد ہرجی لعل کی دلچسپی شامل ہے۔ یوں تو خواتین کو مردوں کے شانہ بشانہ ہر شعبے میں دیکھا جارہا ہے اور وقت کی ضرورت بھی ہے تاہم کھیلوں میں خواتین کی شمولیت سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ کھیل صحتمندانہ سرگرمی ہوتے ہیں اور کھیلوں کے مقابلے خوداعتمادی اور مقابلہ کرنے کی صلاحیت پیدا کرتے ہیں”۔
ان کے مطابق تلسی میگھواڑ حکومتی سرپرستی اور کمیونٹی کی عدم دلچسپی کے باعث بیں الاقوامی سطح پر پاکستان کی نمائندگی نہ کرسکیں۔ حال ہی میں پاکستان اسپورٹس بورڈ نے پاکستان کی نیشنل اولمپک کمیٹی کو ایشین گیمز کے لئے پاکستان بیس بال مردوں کی ٹیم کے ہوائی ٹکٹ اور چائنا کے رہائشی اخراجات دینے سے معذرت کرلی ہے اور پاکستان بیس بال فیڈریشن اپنی ذاتی کوششوں اور وسائل کو بروئے کار لا کربھی بھاری اخراجات از خود کرنے سے قاصر ہے۔
اس سے قبل پاکستان وومین ٹیم ہانگ کانگ میں ایشین ایونٹ میں فیڈریشن کے صدر سید فخرعلی شاہ کے ذاتی پیسے سے حصہ لینے گئی تھی۔ اگر سندھ حکومت و دیگر متعلقہ افسران اپنا تعاون کریں تو آئندہ ایونٹس میں نہ صرف تلسی میگھواڑ بلکہ بیشتر ٹیلینٹڈ لڑکے اور لڑکیاں سندھ سے پاکستان ٹیموں میں شامل ہوسکیں گے۔
6 Comments
very good story
Good story
Keep it up
Great Tulsi Meghwar
tulsi bai bhtreen
Keep it up