خوابوں کے سوداگر

خوف کو شکست دینے والی – تلسی میگھواڑ
August 30, 2023
کراچی کا تاج محل
September 6, 2023

خوابوں کے سوداگر

    (اشوک شرما)

 

تیس  سالہ ثناء خان زندگی میں کچھ بڑا کرنے  کے نہ صرف خواب دیکھتی ہیں بلکہ اب وہ  ان خوابوں کی بیوپاری ہیں   جسے وہ اپنے جیسے ہر انسان کو بیچنا چاہتی ہیں ۔   ویسے  اس کا آبائی تعلق تو  سندھ کے  علاقے شکار پور سے ہے ، جہاں  اس نے آٹھویں تک تعلیم حاصل کی  اور جاگتی آنکھوں سے روشن زندگی کے سپنے  بُنے ۔ بہتر زندگی  کے خواب آنکھوں میں سجائے ابھی اس نے بچپن کی دہلیز سے جوانی  کی گلی  میں قدم ہی رکھا تھا کہ زندگی بسر کرنے کیلئے زندہ رہنے کے مسائل  سوال بن کر کھڑے ہو گئے ۔ ہجرت  کے دکھ انسان کو وہ سبق دیتے ہیں جو بڑے بڑے استاد بھی نہیں سکھا سکتے ۔  2007ع میں ثناء کو اُس وقت اپنے خاندان سے جدا ہونا پڑا جب اسے احساس ہوا کہ وہ خواجہ سرا ہے۔ پھر ثناء نے اپنا شہر چھوڑا اور ضلع نوابشاہ کے شہر سکرنڈ پہنچی جہاں وہ باضابطہ گرو کلچر کا حصہ بن گئیں ۔۔۔مگر اس ماحول میں بھی ثنا ءنے تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا   اور میٹرک تک پڑھائی مکمل کی۔ سکرنڈ میں گرو سے جھگڑا ہوا تو  وہ حیدرآباد منتقل ہوگئی۔ آج  اس شہر میں ثناء  کو دس برس سے زیادہ عرصہ ہوگیا ہے۔  ثنا ء پرانی سبزی منڈی کے قریب اس علاقے میں رہتی ہے جہاں بڑی تعداد میں خواجہ سرا کمیونٹی آباد ہے، ڈھولک لیکر گھر سے نکل جانا،  گھروں میں خوشی کے موقع پر گانا بجاکر بھیک مانگنا  ہی ثنا ءکی آمدنی کا ذریعہ ہے۔ کورونا وبا کے دوران لاک ڈاؤن کے دنوں میں ثناء کا اپنی کمیونٹی کیلئے کردار سامنے آیا اور وہ شہر کے سیاسی سماجی حلقوں میں پہچانی جانے لگی۔

تیس سالہ  ثنا ءخان حیدرآباد میونسپل کارپوریشن کی پہلی ٹرانس میمبر منتخب ہوگئی ہیں۔ ثنا ءخان سندھ کے دوسرے بڑے شہر میں خواجہ سرا کمیونٹی کے حقوق کی جدوجہد میں سرگرم ہیں۔ اب پاکستان پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر انہوں نے سیاست میں قدم رکھا اور اب  کسی حد تک مستقبل کے لیے  پرامید نظر آتی ہیں۔

زندگی کی راہوں  پر آگے بڑھنے کا خواب  اس وقت شرمندہ تعبیر ہوا  جب گذشتہ برس سندھ میں نیا بلدیاتی نظام لانے کیلئے قانون سازی ہونے لگی تو حکومتِ سندھ  نے پہلی بار صوبے کے بلدیاتی نظام میں خواجہ سرا کمیونٹی کو بھی نمائندگی دینے کا فیصلہ کیا اور سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ کے تحت بلدیاتی اداروں کے انتخابات میں ٹرانس جینڈر کیلئے  نشستیں مختص کی گئیں۔ اس طرح سندھ میں خواجہ سرا کمیونٹی کی اہمیت بڑھی اور ان کیلئے سیاست میں آنے کا دروازہ کھلا۔  سندھ کے بلدیاتی اداروں (کراچی میٹروپولٹن، میونسپل کارپوریشنز، ضلع کونسلز، میونسپل کمیٹیوں اور ٹائون میونسپل کارپوریشنز) میں خواجہ سراؤں کی 254 نشستیں ہیں، لیکن حالیہ بلدیاتی انتخابات میں سندھ بھر سے فقط 90 خواجہ سرا مخصوص نشستوں پر منتخب ہوکر آئے ہیں جن میں اکثریت کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے ہے۔ جبکہ بلدیاتی انتخابات میں مجموعی طور پر سندھ میں خواجہ سراؤں کی 163 نشستیں خالی رہ گئی ہیں۔ بلدیاتی انتخابات کے دوران جب اِن نشستوں پر نامزدگیوں کا مرحلہ آیا تو صوبے بھر میں کل 105 خواجہ سرا امیدوار میدان میں اترے مگر ان میں سے بعض امیدواروں پر صنفی شناخت کے مسائل سامنے آئے جس کے باعث 15 خواجہ سراؤں کے نامزدگی فارمز مسترد کردیئے گئے۔

حیدرآباد میں ثنا ءخان کے علاوہ ایک اور خواجہ سرا پنکی بھی میونسپل کی رکن منتخب ہوئی ہیں جبکہ کراچی سے جماعت اسلامی کے کئی خواجہ سرا امیدوارکامیاب ہوئیں۔  لیکن افسوسناک پہلو یہ ہے کہ  حیدرآباد کے آٹھ ٹاؤن میونسپلز میں خواجہ سرا کی مخصوص نشستیں خالی رہ گئی ہیں۔ اسی طرح کراچی سمیت کئی اضلاع میں خواجہ سرا کی اکثر نشستیں خالی رہ گئی ہیں، جس کی وجہ سے خواجہ سرا برادری کو سیاسی دھارے میں شامل کرنے کی کوشش ابھی  ادھوری  ہے۔

ثنا ءخان کے مطابق خواجہ سرا کمیونٹی کی نشستیں  خالی رہ جانے کی بنیادی وجہ انتظامیہ کی جانب سے سنجیدہ اقدامات نہ کرنا ہے ۔ وہ کہتی ہیں کہ بلدیاتی انتخابات  کے حوالے سے کمیونٹی کی رہنمائی نہیں کی گئی، حیدرآباد میں فقط پیپلز پارٹی نے خواجہ سراوں سے رابطہ کیا، جس سے خواجہ سرا کمیونٹی کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے۔  مجموعی طور پر یہ بات سامنے آئی ہے کہ خواجہ سرا کے پاس قومی شناختی کارڈ  نہ ہونے،  ان کی سیاست سے لاتعلقی اور سیاسی جماعتوں کی عدم دلچسپی  کے باعث سندھ میں خواجہ سرا کی اکثر نشستیں خالی رہ گئی ہیں۔

ملک میں سال 2017ع کے دوران ہونے والی مردم شماری کے مطابق صوبہ سندھ میں خواجہ سرا کمیونٹی کی آبادی 5 ہزار 954 رکارڈ کی گئی ہے، لیکن خواجہ سرا کمیونٹی اس تعداد سے مطمئن نہیں ، کہتے ہیں کہ سندھ میں خواجہ سرا وں  کی تعداد مردم شماری میں ظاہر کیے گئی تعداد سے کئی گنا زیادہ ہے لیکن ان کی گنتی کا مناسب طریقہ کار نہ  ہونے کے باعث ان کی اکثریت مردم شماری میں گنتی سے محروم رہ گئی ہے۔ نادرا کے ریکارڈ کے مطابق سندھ میں 580 خواجہ سرا کو قومی شناختی کارڈ جاری کیے گئے ہیں۔

اس ضمن میں ڈپٹی میئر حیدرآباد صغیر احمد قریشی  اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں  کہ  ابھی آغاز ہے، آگے چل کر مزید خواجہ سرا سیاست میں حصہ لیں  گے جس کے لیے خود خواجہ سرا کمیونٹی کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اگر وہ سیاست سے لاتعلق رہے تو ان کی نمائندگی کا سوال برقرار رہے گا۔

ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما و سابق رکن قومی اسمبلی صابر حسین قائم خانی    بھی اس حوالے سے پُرامید نظرآئے، ان کا ماننا ہے کہ ٹرانس جینڈر کو مقامی سطح پر سیاست میں جگہ دینا مثبت پیش رفت ہے۔ جب خواتین کیلئے مخصوص نشستیں رکھی گئی تھیں تو شروع میں خواتین امیدوار بھی سیاست میں کم ہوتی تھیں۔ اب خواجہ سرا کیلئے بھی وہی ماحول ہے آہستہ آہستہ سوسائٹی میں شعور بڑھے گا اور سیاست میں خواجہ سرا کمیونٹی کی حوصلہ افزائی ہوگی جس سے وہ اپنا کردار ادا کریں گے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *