تھرپارکر میں سودی کاروبار اور اس کے معاشرتی اثرات

کراچی میں یہودیوں اور پارسیوں کی تاریخی رہائش گاہ
September 28, 2023
سندھ کے خانہ بدوش ہندو قبیلے
October 19, 2023

تھرپارکر میں سودی کاروبار اور اس کے معاشرتی اثرات

 (میندھرو کاجھروی)

 

تھرپارکر سندھ کا صحرائی، خشک آب و ہوا، پرامن اور تہذیب کے لحاظ سے بڑا شاہکار خطہ ہے۔ کارونجھر جیسے خوبصورت پہاڑ اور کوئلے جیسا بلیک سونا رکھنے والا یہ ضلع کئی سماجی مسائل کا شکار ہے۔ تھرپارکر کی کل آبادی 1.6 ملین ہے، جس میں 50 فیصد آبادی اقلیتوں  سے تعلق رکھتی ہے ۔ جن میں سے اکثریت میگہواڑ، بھیل، کولہی اور دوسرے خانہ بدوش قبیلوں پر مشتمل ہے۔

اس خطے میں صدیوں سے سودی کاروبار چلتا آ رہا ہے۔ ہندو قبیلے کے چھ کمیونیٹیز لوہانہ، مہشوری، مہراج، مالہی، سونارہ اور کھتری سودی کاروبار میں سر فہرست ہیں۔ جبکہ کچھ مسلمان بھی  بلاواسطہ یہ کام کرتے ہیں۔ موبائل ایپ کی طرح مختلف  بینک بھی سودی کاروبار میں سرگرم ِعمل ہیں، دوسری جانب خدمت کے نام پہ کام کرنے والی این جی اوز بھی سود کی مارکیٹنگ میں مصروف ہیں۔

ضلع تھرپارمیں تقریبآ 500 سے زائد افراد  نجی سودی قرضوں کی مارکیٹنگ میں ملوث پائے گئے ہیں ، ان کی فہرستیں حکومتِ سندھ نے بنائی تو ضرور ہیں  لیکن ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہو سکی ۔  نچلی سطح پہ سود خوروں کی خواتین نمائندہ  گھر گھر جا کر سود پہ قرضےدیتی ہیں ، ان خواتین  کا ابھی تک کسی بھی فورم پہ ذکر نہیں ۔

مسلمانوں کے ساتھ خانہ بدوش قبیلے  بھی سود کے قرضوں تلے دبے ہوئے ہیں۔ محنت کش، مزدور، کسان، چھوٹے بڑے سرکاری ملازمین، بیماری میں مبتلا افراد، بیٹیوں کے جہیز کی لعنت میں پھنسے ہوئے خاندان سود پے قرضہ اٹھا لیتے ہیں۔ کرونا وبا اور قحط  سالی کی بنا پر مجبوری میں ان لوگوں نے قرضے تو اٹھا تو لیے لیکن واپس نہیں کر پائے۔  یہ لوگ ڈیفالٹر ہونے کے باعث  سود پہ سود دیتے جا رہے ہیں، نہ دینے کی صورت میں بینکوں اور این جی اوز کی ریکوری پالیسی اتنی سخت  ہے کہ لوگ خودکشیاں کرنے پہ مجبور ہو گئے ہیں۔

بینکس اور این جی اوز اپنی پالیسی میں جکڑ کر ہرچیز لکھ کر لیتے ہیں اور  پھر اسی ڈرافٹ پرنادہندہ افرادکے خلاف  ایف آئی آرز کٹواتے ہیں اور پولیس کی مدد سے ریکوری کرواتے ہیں۔ باقی سود خور اپنے پاس چیک بک، ای ٹی ایم، زیورات، گاڑی کے کاغذات اور زمینوں کے کاغذات گروی رکھتے ہیں اور ان کی رسیونگ کاپیاں بھی نہیں دیتے، ماضی میں سود پہ  جتنے  بھی  قرضے دیئے گئے ۔ان میں کسی کے پاس کوئی بھی رسیونگ کاپی نہیں ہیں۔ کئی خاندان سود بھر بھر کے تباھ ہوچکے ہیں، کئی ملازمیں کی ساری سروس سود میں چلی گئی۔

جیسےجیسے سونے کا بہاؤ بڑھا ،  سودخوروں کی نیتیں بھی بدل گئیں۔ قرضے کی  رقم وصول کرنے  کے بعد بھی   یہ سود خورگروی رکھا سونا واپس دینے  سے انکاری ہیں۔  سود خوروں کے خلاف شکایت کرتے ہوئے  چھاچھرو کے حسین نہڑی نے بتایا کہ میں نے 4 سال پہلے 50 ہزار روپے کا قرضہ لیا تھا، اب وہ ساڑے تین لاکھ مانگ رہا ہے۔ میں غریب ہوں مجھ سے اتنے پیسے نہیں ہوسکتے لہذا  اس  دلدل سے نکلنے کا کوئی راستہ بنایا جائے ۔

گاؤں وائووڑی دورا کے رہائشی عبدالرحیم  نے اپنے بھائی مور کے ساتھ چھاچھرو پریس کلب آکر  شکایت کی کہ سود خوروں نے انہیں تباہ کر کے رکھا ہے، ان کی  ساری سروس یرغمال بنا دی گئی ہے۔ ان کی  چیک بک، 12 تولا سونا، 3 کلو چاندی، گاڑی کے کاغذات سود خور ہریش چند کے پاس ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ  وہ  قرض  کی  رقم ادا کر چکے ہیں لیکن انکا  سامان واپس نہیں  کیا جارہا۔ 36 سالوں میں ایک کروڑ سے زائد رقم ادا کر چکے ہیں ،  پھر بھی  بینک میں پڑے پینشن کے پیسوں سے چار لاکھ نکال لیے گئے۔

یہی شکایت  چیلہار کے ہیرو ولد آسو میگہواڑ  کی ہے  کہ رادھا کلارک سے اٹھارہ ہزار  قرضہ سود پہ لیا تھا، بائیس ہزار روپے ادا کرنے کے باوجود  زیورات واپس نہیں  دے رہا ہے۔

تھرپارکر کے پولیس ہیڈ کوارٹر اور دوسرے تھانوں میں  سینکڑوں شکایات درج ہیں ۔۔۔لیکن ایک پہ بھی کاروائی نہیں ہوسکی ہے۔ صرف دو شکایتوں پر مقدمہ درج ہوسکا ہے ان میں سے ایک چھاچھرو  جبکہ دوسرا مقدمہ چہلہار میں 07/2023، سیکشن 406, 420, 424 پینل کوڈ آف پاکستان کے تحت داخل کیا گیا ہے۔

تھرپارکر میں خودکشیاں:

سود خوروں کے خلاف  صرف چند لوگوں کی شکایتیں منظر عام پہ  آئی ہیں، جو لوگ شکایتوں سے ڈرتے تھے انہوں نے خودکشیاں شروع کردیں۔ جبکہ پولیس رکارڈ میں یہ ساری اموات حادثاتی، ذہنی مریض، گھریلو مسائل کے زمرے میں  درج کی جاتی ہیں، لیکن وہ ذہنی مریض کیسے  اور کیوں بنے ، اس پر کوئی ریسرچ نہیں ہوتی، نہ  پولیس کسی قسم کی تفتیش کی تکلیف اٹھاتی ہے۔ بنیادی وجہ کو کبھی بھی تسلیم نہیں کیا جاتا۔

خانہ بدوش قبیلے کے اکثر لوگ سود خوروں کے پاس گروی ہوچکے ہیں، پولیس خود قرضے کی ریکوری میں بینکس، این جی اوز اور سود خوروں کا ساتھ دیتی آ رہی ہے، یہی وجہ ہےکہ  غریب لوگ جو کماتے ہیں وہ قرضوں میں دے دیتے ہیں۔  پھر سارا گھر، بچے، بوڑھے، مرد اور خواتین کوئی اور سہارا نہ پاکر خودکشی کر لیتے ہیں۔ جب ایک مجبور ماں بچے کو بھوکا دیکھتی ہے تو خودکشی کرلیتی ہے اور ایک مجبور باپ جب گھر میں آٹا نہیں لا سکتا تو خودکشی کر لیتا ہے۔

مٹھی شہر کے اندر مصری شاہ بھٹ پر 75 سالہ محنت کش ڈیوو فاقہ کشی اور قرض سے ہار گئے  اور گلے میں پھانسی کا پھندا ڈال کر خودکشی کرلی۔ مٹھی کے 50 سالہ ہنسراج بیمار بھی تھا اور مقروض بھی ، علاج اور قرض اتارنے کےلیے اپنا پلاٹ بیچ ڈالا لیکن سود کے دلدل سے نہ نکال پایا،  جس کے بعد ذہنی دباؤ کا شکار ہوکر اس نے بھی خودکشی کرلی۔

ننگرپارکر کے گاؤں سندر میں ساس بہو نے مفلسی  سےتنگ آکر ایک ہی پھندے سے پھانسی لگالی۔  گاؤں بھارملیو  میں قرضوں میں جکڑے شوہر نے بیوی کو چھوڑ دیا۔ جب خاتون ہیماں کے لیے  بچے پالنا بہت کٹھن ہوگیا  تو اس نے بھی  اپنی جان لے کر زندگی کی تکالیف سے چھٹکارہ  حاصل کیا۔ اسی طرح چیلہار شہر کے نزد گاؤں دھوڑکیوں میں 45 سالہ چاندو نے کوئیں میں چھلانگ لگا کر خودکشی کرلی۔

مٹھی کے فقیر محلے میں 45 سالہ طوطو میگہواڑ، ڈیپلو کے صبڑی گاؤں میں  26 سالہ تنو ولد کھینرو کولہی، کاریھر میں 14 سالہ بائیسا بنت مانو مل نے خودکشی کی۔ سودی قرضوں میں جکڑے چھاچھرو کےگاؤں  گوگامیو کی 26 سالہ جوبا ، جنجھیئر میں دیندی ، ڈاھلی میں ریشماں، ننگرپارکر میں بانکی، جارونبھڑج میں 33 سالہ گردھاری میگہواڑ نے خودکشی کر لی۔

ڈیپلو میں ایسرداس نے غربت، بیماری اور قرض سے تنگ آ کر خودکشی کر لی، جبکہ ڈیپلو کی 35 سالہ حلوہ  مزدوری کر کے اپنے بچوں کا گذر سفر کرتی تھی، لیکن ایک دن اس کی کوئی مزدوری نہیں لگی اور نہ ہی اسے  کسی نے ایک کلو آٹا دیا، بھوکے بچوں کے پاس جانے کے  بجائے  اس نے جنگل میں خود کو پھانسی دے کے موت کو گلے لگا لیا۔

سرکاری اعداد وشمار کے  مطابق 2021 میں ایک سو اکیس , 2022 میں ایک سو چوون  جبکہ 2023میں اب تک سو سے زائد خودکشی کے واقعات پیش آچکے ہیں ۔ یہ سلسلہ روز بہ روز تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے۔ سرکاری سطح پر  بتایا جا رہا ہے کے 2018 سے کسان اور محنت کش لوگ پریشانیاں بڑھنے کی وجہ سے خودکشیوں پے مجبور ہوگئے ہیں۔

فيکٹ اینڈ فائیڈنگ کمیٹی:

وزیر اعلی’ سندھ کے خاص معاون برائے انسانی حقوق سریندر ولاسائی کی جانب سے تھرپارکر میں بڑھتی ہوئی شکایات کے مد نظر چار رکنی فیکٹ اور فائیڈنگ کمیٹی تشکیل دی گئی ہے ۔ کمیٹی نے ضلع میں  متاثر ہ افراد  اور سود پہ قرض دینے والوں سے ملاقاتیں کیں ۔ مکمل سروے کے بعد کمیٹی نے اعتراف کیا کہ تھرپارکر سماجی مسائل کا شکار ہے، سودخوری عروج پہ ہے ، لوگ ڈرے ہوئے ہیں، یہاں خودکشیوں کی بڑی وجہ بھی غربت، مفلسی اور سودی لین دین ہے۔

اس سفارشی ڈرافٹ کے بعد سندھ حکومت کی جانب سے  ایک بل تیار کیا گیا ہے ، جس کی گورنر سندھ نے بھی منظوری دے دی۔

بل کی اہم شقیں:

سود کی ممانعت: یہ بل نجی قرضوں پر سود کی وصولی کو مکمل طور پر ممنوع قرار دیتا ہے، جس سے فرد  یا کسی گروہ کے لیے قرض خواہوں سے  سود وصول کرنا غیر قانونی ہے۔

سزا: جو کوئی بھی براہ راست یا بالواسطہ طور پر ایکٹ کی دفعات کی خلاف ورزی کرے گا، اسے کسی بھی وضاحت کئے بغیر سزا دی جائے گی جو دس سال تک ہو سکتی ہے لیکن تین سال سے کم نہیں ہو گی اور جرمانہ بھی ہو گا جو 10 لاکھ روپے سے زیادہ نہیں ہو گا۔

متبادل مالیاتی ماڈل: قانون سازی اسلامی مالیاتی ماڈلز کو اپنانے کی حوصلہ افزائی کرتی ہے، جیسے کہ قرض الحسن (خیراتی قرضے) اور منافع کی تقسیم کے انتظامات، جو کہ سود سے پاک اور اسلامی اصولوں سے زیادہ ہم آہنگ ہوں۔

کنزیومر پروٹیکشن: بل میں قرض دینے کے غلط طریقوں سے بچانے کے لیے صارفین کے تحفظ کے مضبوط اقدامات شامل ہیں۔  قرض دہندگان کو شرائط و ضوابط کے بارے میں شفاف ہونا ضروری ہے، اور عدم تعمیل پر سخت جرمانے عائد کیے جاتے ہیں۔

بل کے فوائد:

استحصال میں کمی: سود پر پابندی ۔۔قرض لینے والوں کو سود کی شرح میں اضافے کی وجہ سے دائمی قرضوں کے جال میں پھنسنے سے روکتی ہے، جس سے بےایمان قرض دہندگان کے استحصال کا خطرہ کم ہوتا ہے۔

مالی شمولیت: سود سے پاک فنانسنگ ماڈلز کی طرف منتقل ہونا پسماندہ اور معاشی طور پر پسماندہ کمیونٹیز کے لیے کریڈٹ کو مزید قابل رسائی بناتا ہے، مالی شمولیت کو فروغ دیتا ہے اور لوگوں کو معاشی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے لیے بااختیار بناتا ہے۔

سماجی انصاف: مالیاتی طریقوں کو اسلامی اصولوں کے ساتھ ہم آہنگ کرتے ہوئے، قانون سماجی انصاف کو فروغ دینے کی طرف ایک قدم اٹھاتا ہے، کیونکہ اس کا مقصد معاشرے میں دولت اور مواقع کی زیادہ منصفانہ تقسیم پیدا کرنا ہے۔

اقتصادی استحکام: کم مالی استحصال اور مالی شمولیت میں اضافےکے ساتھ، معیشت زیادہ استحکام کا تجربہ کر سکتی ہے، جو پائیدار اقتصادی ترقی کا باعث بنتی ہے۔

سندھ ہائی کورٹ:

سندھ ہائیکورٹ حيدرآباد نے صوبہ بھر میں سود کے کاروبار سے منسلک افراد کے خلاف کریک ڈاؤن کا حکم دے دیا ہے۔ عدالت نے آئی جی سندھ اور محکمہ داخلہ سندھ کو احکامات جاری کردئیے ہیں۔ جسٹس صلاح الدین پہنور کی عدالت نے کہا کہ آئی جی سندھ تمام ایس ایس پیز کو سود پر کاروبار کرنے والوں کے خلاف قانونی کاروائی کے احکامات جاری کریں۔ عدالت نے مزید حکم دیا کہ محکمہ داخلہ سندھ تمام ڈپٹی کمشنرز کو سودی کاروبار سے منسلک افراد کے خلاف کارروائی کی ہدایت جاری کریں۔ عدالت نے دو ماہ میں دی سندھ پروہیبشں آف انٹرسٹ آن پرائیویٹ لون ایکٹ کے رولز بنانے کا حکم دے دیا۔سیکریٹری قانون دو ماہ میں سود کے کاروبار کی روک تھام سے متعلق بنائے گئے ایکٹ کے رولز بناکر رپورٹ پیش کریں۔

دوسری جانب سیکریٹری قانون نے عمل درآمد رپورٹ عدالت میں پیش کردی۔ عدالتی احکامات پر صوبے میں دی سندھ پروہیبشں آف انٹرسٹ آن پرائیویٹ لون ایکٹ 2023 بنادیا گیا ہے۔ ایکٹ کا با قاعدہ گزٹیڈ نوٹفیکشن بھی ایشو کردیا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سودی کاروبار سے منسلک افراد کے خلاف قانون نافذ العمل ہوچکا ہے کاروائیاں جاری ہیں۔ سندھ ہائے کورٹ نے حکم دیا کہ ایسے لوگوں کے خلاف کارروائی کی جائے جو مجبور لوگوں کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔

2 Comments

  1. Ashok Ramani says:

    Bhtreen story, keep it up ustad

  2. Bhalji ram diplai says:

    Keep it . nice report kajhervi sb

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *