دنیا میں جہاں جہاں بھی فٹ پاتھ بنے ہوئےہیں، وہاں سے گزرتے ہوئے لوگوں کےقدموں کی چاپ اورباتیں تو سنائی دیتی ہیں لیکن انہی فٹ پاتھ پر کچھ لوگ اپنی پوری زندگیاں بسرکر دیتے ہیں، ان کا رزق، ان کا مسکن ، ان کا گھریہی فٹ پاتھ ہے، مگر یہاں سے گزرنے والوں کوان غریبوں کے حال کی خبر نہیں ہوپاتی۔اپنی بے رنگ زندگی میں رنگ ڈھونڈنے والوں ، اور زندگی کے خاکے میں اپنے خوابوں کے رنگ بھرنے والوں کیلئے یہ گزرگاہ مسکن بھی ہے اورجائے پناہ بھی ۔
حیدرآباد پریس کلب روڈ کے دونوں اطراف پر بنے فٹ پاتھوں پر بھی ایسی ہی دنیا برسوں سے آباد ہے۔ یہ وہی سڑک ہے جہاں ہرروز مختلف مظاہرین اپنے مطالبات کے حق میں نعرے لگاتے اور تقریریں کرتے ہیں ، ہزاروں گاڑیاں بھی رات گئے تک فراٹے بھرتی گزرتی ہیں لیکن یہاں رہنے والے سینکڑوں محنت کش عورتیں،بوڑھے، بچےاورجوان ان سب چیزوں سے بے نیاز سرکنڈوں سے گھریلو استعمال کی مختلف اشیا بناتے نظر آتے ہیں۔
دن کی شروعات ہوتی ہے، سورج نکلتا ہے اور امید کی روشنی پھیلتی ہے ۔۔۔ آس بنتی ہے ۔۔۔اورجیسے ہی ان فٹ پاتھوں پر زندگی چلنے لگتی ہےتو یہ بھی سرکنڈوں کے گٹھوں کے ساتھ فٹ پاتھ پرپہنچتے ہیں اوران کی کہانی کا آغاز ہوتا ہے۔ یہ فٹ پاتھ ایک کہانی کارکا اسٹیج ہی تو ہے، جس پردن کی شروعات کے ساتھ ہی کہانیاں چلنے لگتی ہیں۔ ان سرکنڈوں کو چھیل کراس سےآرائشی آئینے، موڑھے، چٹایاں، سردی گرمی سے بچانے والی چھپریاں اوردیگراشیا بناتے ہیں۔ یہ تمام اشیا کئی گھروں کی زینت تو بنتی ہیں مگرانہیں بنانے والے ہاتھوں میں چھلکے اتارتے وقت پڑ جانے والے چھالوں اور ان میں چبھتی سوئیوں اور اس سے اٹھتی درد کی ٹیسوں کو ان کے گاہک نہ تو دیکھ پاتے ہیں اور نہ ہی محسو س کرسکتے ہیں ۔
اس وقت 60 کلوگرام سرکنڈے کے ایک بنڈل کی قیمت پانچ ہزارروپے تک ہے۔ سات ماہ قبل اسی بنڈل کی قیمت 1200 روپے ہوتی تھی۔ حیدرآباد میں یہ سرکنڈے ہوسڑی، میرپورخاص اورنواب شاہ کے علاقوں سے آتے ہیں۔ان سے بنائی جانے والی سب سے زیادہ چیزچھپری ہے۔ ایک چھپری کی تیاری میں چار مزدور حصہ لیتے ہیں جن کا روزانہ کا معاوضہ 150 روپے ہوتا ہے۔اس کی قیمت اس کے سائز کے لحاظ سے متعین ہوتی ہے اور1500 روپے سے لے کر سات ہزارروپے تک ہو سکتی ہے۔ حیدرآباد میں یہ کام کرنے والے 120 کے قریب مزدور ہیں۔
چالیس سالہ شیام لال راجپوت اپنے چار بچوں کے ساتھ مل کر چھپری بنانے کا کام کرتے ہیں۔ ان کے آباواجداد بھی یہی کام کرتے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ “ہمارے کام میں اب پہلے جیسا مزہ نہیں رہا کیونکہ ہماری بنائی ہوئی چیزوں کے خریدار اب کم ہو گئے ہیں۔ اب یہ ایک ہوائی روزی ہے ۔کبھی کبھی تو ہم کئی کئی دن تک گاہکوں کا انتظار کرتے رہتے ہیں”۔
ان کے خیال میں گاہکوں میں کمی کی وجہ مہنگائی ہے۔ “مہنگائی نے سب کی کمر توڑدی ہے۔ اس کا اثر ہمارے کاروبار پربھی پڑ اہے ۔ پہلے غریب طبقے کا آدمی بھی ہم سے کچھ نہ کچھ خرید لیتا تھا لیکن اب چند لوگ ہی ہیں جو ہماری بنائی ہوئی چیزیں خریدنے آتے ہیں”۔
اپنے مستقبل سے نا آشنا اورحالات کی چکی میں پسے ہوئے یہ لوگ رزق کی ڈورکو پیٹ کی آگ سے باندھنے کا ہنرجان گئے ہیں۔ تیز سے تیزترچلتے ہاتھوں کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ یہ محنت کش کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ سامان تیارکرکے اچھےپیسے کمانا چاہتے ہیں۔ اس کہانی کا ایک دردناک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ بچے جو چلنے پھرنے کے قابل بھی نہیں، وہ بھی اپنے والدین کے ساتھ فٹ پاتھ پر ہی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
ان ہنرمند محنت کشوں میں 55 سالہ بھیرومل بھی شامل ہیں۔زمانے کے سرد وگرم جھیلنے والا چہرہ بتاتا ہے کہ کتنی خاک چھانی ہے ، ان کا سارا خاندان سرکنڈوں سے مختلف اشیا بنانے میں جتا ہواہے ، وہ خود بھی بچپن سے یہی کام کر رہے ہیں ۔ انہیں بس اتنا یاد ہے کہ ان کے آباواجداد انڈیا کے علاقے گجرات سے حیدرآباد آئے تھے اور برطانوی عہد سے اس پیشے سے وابستہ ہیں۔ اپنے ساتھی مزدوروں کی طرح وہ کبھی اسکول نہیں گئے اور نہ ہی ان کے بچےتعلیم حاصل کررہے ہیں۔ ان سب کا خیال ہےکہ تعلیمی اخرجات پہ خرچ کرنےکے بجائے وہ سرکنڈوں کو مختلف اشکال دے کرزیادہ کما سکتے ہیں اور زندگی کی گاڑی کو کھینچ سکتے ہیں۔ ان کے اپنے الفاظ میں”میری زندگی یہیں گزرگئی ہے جبکہ میرے داداکی بھی اسی فٹ پاتھ پہ وفات ہوئی اور میرے بابا نے بھی اپنا سارا وقت یہیں گزاردیا۔ اب ہمارے بچے بھی اسی طرح اپنی زندگی گزارلیں گے۔ ”
سخت جان مردوں کے ساتھ ساتھ صنف نازک بھی اس تگ و دو کا حصہ ہیں ۔ ان عورتوں کے ساتھ جڑے رشتے بھی یہاں پرورش پاتے ہیں یہاں رشتے ناطے بھی نظرآتے ہیں اوران میں احساس کی تپش بھی دکھائی دیتی ہے۔ بوڑھے جسم اور جھریوں بھرے ہاتھوں والی گیتا بھی بچپن سےسرکنڈوں سے مختلف اشیا بنانے کے کام میں جٹی ہوئی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ “میں اپنے شوہر کاہاتھ اس لیے بٹاتی ہوں کیونکہ یہ کام اکیلا مرد نہیں کرسکتا کیونکہ سب کواپنا پیٹ پالنا ہے اوراگرگھرکےسب افراد کام نہ کریں توفاقے پڑجاتے ہیں”۔
اس فٹ پاتھ پہ بیٹھی خواتین کا خیال ہے کہ معاشی طورپر ان کے حالات اس لیے تبدیل نہیں ہوئے کیونکہ انہوں نے کبھی اپنے کاروبار کوبڑھانے کا نہیں سوچا اور نہ ہی کبھی کسی ٹھیکیدار کو اپنے کاروبار میں شامل کرنے کی کوشش کی ۔ کاربار میں جمود کی ایک اوراہم وجہ ان کے مردوں کا نشہ کرنا بھی ہے۔
رام بائی کے شوہر بھی نشے کی لت میں مبتلا ہیں اور مسلسل بیمار رہتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اگر میں سرکنڈوں کا کام نہیں کروں گی تومیرے لیے چار پیسے کمانا بھی مشکل ہوجائے گا کیونکہ مجھے اس کے علاوہ کوئی کام آتا بھی نہیں”۔
سرکنڈوں سے رنگین اشیاء بنانے یہ افراد اپنے رنگین خواب اسی فٹ پاتھ پہ بیچ دیتے ہیں لیکن وہ جانتے ہیں کہ ان کے لیے دوا لینا بھی بہت مہنگا سودا ہےاور تعلیم دلوانا ایک اضافی بوجھ ۔ اس لیے یہاں ان کے خاندان کے بیمار، بیروزگار اور پریشان حال وجود اور ننھے بچوں کا بہتر مستقبل نظر نہیں آتا۔ صبح کی گود سے شام کی آغوش تک رزق ڈھنونڈنے والے اس فٹ پاتھ کو اپنی جائے امان سمجھتے ہیں اوراپنی مشقت کا صلہ تو پالیتے ہیں لیکن ان کے ہاتھوں سے کی ہوئی محنت زندگی کی صرف بنیادی ضروریات ہی مشکلوں سے پورا کرسکتی ہے۔
اور پھر ۔۔۔ رات کے سناٹوں میں تھکے جسم صبح کا انتظار کرتے ہیں کہ اگلے دن نئے سرے سے مشقت کی چکی میں پسنے کے لیے تیار ہونا ہے۔ یہ جانتے ہیں کہ پر سکون نیند اورخوش رنگ خواب دیکھنے کیلئے پھولوں کی سیج کی ضرورت نہیں ہوتی، بس آنےوالے وقت سے کچھ اچھی امیدوں کے سہانے سپنے ہی انکی کانٹوں بھری زندگی کو فرحت بخش احساس سے معمورکرتے ہیں۔