پائیدار ترقی کے پانچ رہنما اصول

صبح کی گود سےشام کی آغوش تک۔۔۔ ہمارے گھروں کو سجاتے چھالوں بھرے ہاتھ
October 26, 2023
پاکستان میں دیوالی کے دیپ
November 13, 2023

   (نبیل اینھتونی)

 

انسانی معاشروں کا حُسن افراد کی خوشحالی سے منسوب ہے اور جو معاشرہ سلیقے ،طریقے  کی مہذب ،منظم اور تہذیب یافتہ اقدار سے دور ہو،  وہاں خوشحالی آ ہی نہیں سکتی ۔ یہ پہلو ہی معاشروں میں ترقی کی اولین ضمانت ہیں اور رہیں گی ۔

ہمارے ریاستی امور چَلانے والے جو گُزر گئے اور جو ہیں یہ سب یا تو ترقی کی خواہش کو اِتنا شدید کر چُکے ہیں کہ دیوانوں کی مانند منصوبے بناتے ہیں اور اُن  میں  مزید غرق ہو رہے ہیں یا پھر یہ کہ  وہ  فقط اپنا فائدہ دیکھتے ہیں اور “قوم جائے بھاڑ میںَ” پر قائل ہیں ۔

دہائیاں گُزر گئیں، ترقی کے لیے کئی اعلیٰ ترین پالیسیاں عوامی سوچ  کا محور بنیں ، لیکن افسوس اُن پر عمل نہیں ہو سکا اور ہم دن بہ دن تنزلی کی کھائیوں  میں گرتے  جا رہے ہیں ۔

ہمارے لکھاری ، موٹیوشنل اسپیکرز اور مذہبی خطیب بھی ہمارے قومی رویے کا کچھ نہ بگاڑ سکے ۔ ہمارے اسکولوں کے داخلی راستوں پر برسوں سے لکھا جا رہا ہے اتحاد،  تنظیم اور ایمان لیکن افسوس  نہ ہمارے اسکول کبھی   ہمیں متحد کر سکے، نہ قومی یکجہتی نام کی  کوئی چیز ہمیں نظر  آتی ہے ۔۔  اور یہ ایک حقیقت ہے کہ  جن قوموں کے قومی رویے میں اتحاد اور قومی یکجہتی نہیں ہوتی وہ قومیں جاگیرداروں کا ہانکنے والا ریوڑ   بن کر رہ جاتی ہیں ۔

پاکستان میں 58 فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں جبکہ متوسط اور  اعلیٰ طبقے  کی شرح 20 فیصد ہے ۔ ترقی پذیر معاشرےمیں غربت بڑھنے کی کچھ بنیادی وجوہات ہیں ؛

پُر عزم  و پُرخلوص قیادت کا فقدان

غریب طبقوں کی نشاندہی اور درست اعداد و شمار کی  ناقص حکمتِ عملی

ناقص عقل گورننس کا انتخاب

آبادی میں خطرناک حد تک اضافہ

جاگیردارانہ اور مراعات زدہ افراد کا وسائل پر قبضہ اور وسائل کی غیر مُنصفانہ تقسیم ۔

اس میںَ کوئی شک نہیں کہ ہر ملک میں غربت کی وجوہات مختلف ہوتی ہیں اور اُنکے حل بھی مختلف ہوتے ہیں ۔ اوپر جن وجوہات کی  ہم نے بات کی ہے ان کا  ایک نمونہ  آپکے سامنے  رکھتا ہوں ۔

چین ہمارا ایک  اچھا ہمسایہ ملک ہے ۔ چین کا شمار دنیا کی بڑی آبادی والے ممالک میں  ہوتا ہے ۔ یہاں کے موجودہ صدر شی جنگ پنگ سے قبل 2011 ء میں غربت کے خاتمے اور ترقی کے حوالے سے چین نے اپنا پہلا دس سالہ پروگرام مکمل کر لیا تھا اور یوں چین دنیا کا پہلا ملک تھا جس نے اقوام متحدہ کے ملینیم ڈویلپمنٹ مقاصد 2015 ء سب سے پہلے حاصل کئے۔

2012 میں شی جنگ پنگ کو صدراتی مقاصد پر فائز کیا گیا تو  انہوں نے اپنے ابتدائی اجلاس میں  غربت کے خاتمے پر   Precise Poverty Alleviation    کا تصور متعارف کروایا  جس کے ذریعے ہر گھرانے کی غربت کی وجوہات تلاش کرنا تھیں ۔ منظم اور سنجیدگی سے اُن طبقوں کو نشاندہی کی گئی اور اپنے اہداف کی طرف سفر شروع کیا ۔ صدر شی جنگ پنگ نے غربت کے خلاف جنگ میں اپنے اہداف 2030 تک مکمل کرنا تھے جو انہوں نے 2020 میں مکمل کر لئے اور 2021 میں وہ  بڑے فخر سے میڈیا پر اپنی زبان میں یہ فتح بتا رہے تھے ۔

عوام کو پاکستانی حکمرانوں کی غیرسنجیدگی سے شکایت ہے ، انہیں   ان کے حکمرانی کے رویے سے شکوہ ہے ۔ یہ بھارت سے دشمنی، اسرائیلیوں کے فلسطین پر مظالم  اور کشمیر کو شہ رگ کہہ کہہ کر  لوگوں کا خون  تو گرماتے ہیں  لیکن ملک میں دستیاب تمام  وسائل کو جاگیردار طبقے تک محدود رکھتے ہیں ۔ سرمایہ داروں کی اجارہ داری کو تھپکی دیتے ہیں اور غریب غربا کو اللہ کی رضا کہہ کر ٹرخا  دیتے  ہیں۔ عالمی قرض کے اداروں سے قرض لے کر کچھ خود کھا پی جاتے ہیں، کچھ اِنکے چیلے جبکہ متوسط طبقے کے افراد پہ   بزنس الاؤنس کے لیے ایسی شرائط رکھی جاتی ہیں کہ آدمی  کی  رسائی ہی ممکن نہیں ہوتی ۔ منظم اور سنجیدہ رویے ہوں تو اِن تمام حالات سے نکلا جا سکتا ہے  اور اِس کا بندوبست کیا جا سکتا ہے ۔

ریڑھی پر جو ناشتہ لگاتا ہے ، جو جوس بیچتا ہے اور  جو سبزی بیچتا ہے  جو چھوٹی صعنت رکھتا ہےیا  چھوٹا کسان ہے یہ سب بھی ہر گورنمنٹ کی ذمہ داری ہیں اور یہ چلتے پُرزے ہیں اُنکو بروئے کار لا کر ایک ایسے راستے پہ  دوڑ لگائی جا سکتی ہے کہ جس سے ہم ترقی کی طرف نکل جائیں ۔ ملک کے یہ افراد  ترقی کے  چیمپئن بن سکتے ہیں اگر ترقی کے دیوانے ذرا ہوش کے ناخن لیں تو اِن کو ٹھیک اعداد و شمار میں لائیں، جو وسائل دستیاب ہیں اُن میں اضافہ کر کے یہ سہولیات عام آدمی کو  فراہم کریں،   اِنکی بھی  مختلف الاؤنس تک رسائی ہو ۔

جو ریڑھی چلاتا  ہے  وہ  اپنی جفا کشی سےپاکستان کو  چلاتا ہے ۔۔۔لیکن حکومتی سطح پر نا اہلی  اپنی انتہایہ سطح کو چھو رہی ہے   ۔ ہر  الیکشن سے پہلے  سیاستدانوں کے منشور نہایت انقلابی ہوتے ہیں لیکن  حکمران بنتے ہی اُنکے منشور متروک   ہو جاتے ہیں ۔

!غربت کے خاتمے پر چند اقداماتی نمونے

چین جب غربت کے خاتمے پر جنگ لڑ رہا رہا تھا تو اُنہوں نے کئی اقدامات کیے اِن اقدامات میںَ ایک ری لوکیشن تھا ۔ نقل مکانی میں انہوں نے اُن دیہاتی لوگوں کو  جو  ماحولیاتی شدت  سے سب سے زیادہ متاثر تھے (َ  چرواہے اور لکڑہارے)،  اُنکو جنگلات اور ماحولیاتی حفاظت پر نوکریاں دیں۔

نوجوان جو اسکولوں سے باہر تھے اُنکو ٹیکنکل ایجوکشن کی طرف راغب کیا اور والدین کو پابندبھی کیا ۔

پاکستان کی بےشمار ایسی  زمینیں ہیں جو  کھیتی باڑی کے لیے آباد کی جا سکتی ہیں لیکن مجال ہے انتظامیہ  دیہاتیوں کو اِس طرف لے کر آئے۔

بھوٹان اپنا ترقی کا پیمانہ جی ڈی کو سامنے رکھ کر نہیں دیکھتا ، وہ دیکھتا  ہے کہ ہمارے کتنے فیصد شہری خوشحال ہیں ۔ کسی بھی  معاشرے میں ترقی ، خوشحالی اور کامیابی، مہذب  رویوں سے ملتی ہے ۔ بس اسی   اچھی روایات کی ہماری حکومتوں نے پابندی نہیں کی اور  اسی وجہ  سے آج تک ہمارا کوئی قومی رویہ نہیں  بن سکا۔جب تک یہ  نہیں ہو گا غریب ،،،  غریب تر ہوتا جائے گا اور جاگیر دار امیر تر ۔

:چند تجویز ہیں

وسائل کی مُنصفانہ تقسیم لازم بنائیں

چھوٹے ترین کام کرنے والوں کو سہارا فراہم کریں

ڈیٹا اکٹھا کریں اور تفصیلی خاکے بنائیں

بر وقت امداد کی فراہمی یقینی بنائیں

ورنہ برین ڈرین کا شکار  ملک آہستہ آہستہ احمقوں کا کھیت بن جاتا ہے

:نمونہ

اگر ہم چین کی انقلابی  ترقی کا  عمومی جائزہ لیں تو اس کا جواب ان پانچ ڈیز (5Ds) میں ہے جو وہاں  غربت کے خاتمے کا موجب بنے۔

پہلا ”D” پرعزم قیادت (Determine leadership) کا ہے۔

دوسرا ”D” تفصیلی خاکے  ( Detailed Blueprint) کو بیان کرتا ہے۔

تیسرا ”D” ترقی پر مبنی اپروچ (Development Oriented) کوظاہر کرتا  ہے۔

چوتھا ”D”اعداد وشمار پر مبنی گورنینس (Databased Governance) کے بارے میں ہے۔

پانچواں ”D” مقامی ڈیلیوری (Decentralize Delivery) کے اصول کو واضح کرتا ہے۔

ایک تحقیق کے مطابق چین دنیا کا واحد ملک ہے جو اپنے قومی بجٹ کا 50فیصدسے زائد مقامی حکومتوں کے ذریعے سے خرچ کرتا ہے۔ غربت کے خاتمے کے لئے  بھی چین نے مقامی ڈیلیوری کا اصول اپنایا اور غریب آبادی تک وسائل پہنچانے اور ان کی مالی مدد کے لئے  مقامی حکومتوں کے ذریعے کوششیں کی گئیں جو کہ کامیابی سے ہمکنار ہوئیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *