میں کراچی کے پُرشور علاقے صدر میں صرف اس لیے موجودتھی کہ مجھے اپنی دوست کے لیے تحفہ لینا تھا لیکن ایسا تحفہ جو عام تحائف سے تھوڑا ہٹ کر ہو ۔ جیسے ہی میں نے اُس گلی میں قدم رکھا سارا شور و غل کہیں پیچھے رہ گیا اور یہاں بکھری ماضی کی ان گنت کہانیاں سرگوشیاں کرنے لگیں ۔خاموش خاموش سی صدر کی اس مارکیٹ میں مجھے سو سے پانچ سو سال پرانے ہاتھ کے بنے ہوئے برتن، مجسمے، جواہرات، برقی قمقمے، کیمرے، ریڈیو، پاندان اور موسیقی کے آلات نظر آئے جو پرانے لوگوں کی محنت و ہنر کی عکاسی کرتے رہے تھے ۔یہاں رکھے منفرد خیالی آرٹ کے فن پارے، بدھا کے مجسمے اور ہندوؤں کی مورتیاں جس خوبصورتی سے تراشی گئی ہیں ، ان کو دیکھنے والے دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں۔
اس قدر پرانا اور نایاب سامان آخر ان دکانوں تک کیسے پہنچتا ہے، اس تجسس نے مجھے دکانداروں سے بات چیت کرنے پہ مجبور کر دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ اکثر نئی نسل اپنے باپ داداؤں کی قدیم و قیمتی نشانیاں یہاں دکانداروں کو فروخت کردیتی ہے یا پھر دکاندار کباڑ خانے سےان نادر و نایاب سامان کوکھوج لگا کر خرید لاتے ہیں۔ جو اشیاء تھوڑی بہت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوں ان کی مرمت کر کےانہیں بچاتے ہیں او ر پھر نئی زندگی دے کر دکانوں میں بیچنے کے لیے سجا دی جاتی ہیں لیکن جو زیادہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوں اور ان کا دوبارہ بننا ممکن نہ ہو تو انہیں مجبورا پھینکنا پڑتا ہے۔
ماضی میں پوری سڑک پہ پھیلی صدر کی اینٹیک مارکیٹ آج سکڑ کر صرف صرف دو گلیوں تک محدود ہوچکی ہے۔ جس کی وجوہات دکندار کچھ یوں بتاتے ہیں کہ پہلے یہاں اَن گنت دکانیں ہوا کرتی تھیں لیکن وقت کے ساتھ جب فائبر اور پلاسٹک نے نئی دنیا میں اپنے قدم جمائے ،ان دکانوں کی تعداد گھٹتی چلی گئی ۔ دکانداروں کا کہناہے کہ کچھ لوگوں سے اینٹیک کی دکانیں خالی کروا کر یہاں کپڑے کا کاروبار کرنے والوں کو بھی بسا یا گیا ۔
اب یہاں گنی چنی دکانیں ہی آباد ہیں وہ بھی اینٹک کے شوقین لوگوں کی وجہ سے جو آج بھی یہ قدیم و قیمتی سامان خرید کر لےجاتے ہیں ۔ مجھے یہاں کوئی خاص رش دکھائی نہ دیا ۔ دکانداروں کےمطابق ان قیمتی و قدیم اشیاء کو اندرون ملک کے ساتھ ساتھ بیرون ممالک سے بھی لوگ خریدنے آتے ہیں لیکن بدلتے دور کے ساتھ اینٹک کے قدردان بھی کم ہوچکے ہی اورخریدار کم ہی آتے ہیں۔ پیتل، تانبے ، کانسی سے بنی ان چیزوں میں ملاوٹ کو ہر کوئی نہیں پہچان سکتا۔ اس لیے صرف وہی لوگ یہاں آتے ہیں جو قدیم اشیاء کی سمجھ رکھتے اور ان کی اہمیت کو جانتے ہیں۔ اینٹیک کے قدر دان کم ہی سہی لیکن ان کے دِم سے ہی یہ دکانیں آج بھی آباد ہیں ۔ دوسری جانب دکاندار حکومت کی نظر ِ کرم کے منتظر ہیں اور کہتے ہیں کہ اینٹک سے ہم اپنے ملک کا سرمایہ بڑھا سکتے ہیں لیکن حکومت اس طرف توجہ ہی نہیں دیتی جس کی وجہ سے ہمیں اس کاروبار میں مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ مجھے کل نوابوں کے محلوں کی زینت بنی نادر و نایاب اشیاء ،آج دھول مٹی سے اٹی ہوئی دکانوں کی شیلف پہ رکھی، وقت کی بےثباتی کا پیغام دیتی محسوس ہو رہی تھیں۔
1 Comment
That’s great