ہمارے گمنام ہیرو ۔۔۔۔ جہدِمسلسل کی کہانی

کراچی میں چُھپےنایاب خزانے
November 20, 2023
کارونجھرپہاڑ اور مقدس تالاب
November 24, 2023

ہمارے گمنام ہیرو ۔۔۔۔ جہدِمسلسل کی کہانی

 

    ( رانا مالہی )

صوبہ سندھ کےصحراوں کے بیچ    ایک دورد راز گاؤں “مینا جی ڈھانی” کی آسوبائی بچپن میں پولیو کا شکار ہو ئی  ۔ٹانگوں سے معذور ہوئی تو   ان کے لیے چلنا پھرنا مشکل ہو گیا۔ لیکن پچھلے کئی سالوں سے وہ ہر صبح گھر سے اپنے بھائی کے ساتھ موٹرسائیکل پر بیٹھ کر نکلتی ہیں تاکہ اپنے قائم کردہ مقامی ا سکول میں  پڑھا سکیں۔

مینا جی ڈھانی سندھ کے ضلع عمرکوٹ کا حصہ ہے ۔ 2018 کی مردم شماری کے مطابق اس ضلع کی 52 فیصد آبادی ہندو مذہب کی پیروکار ہے۔  اس طرح یہ پاکستان کا واحد ضلع ہے جہاں ایک اقلیتی مذہبی برادری سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی اکثریت ہے۔آسو بائی کا تعلق بھی کولہی ہندو برادری سے ہے۔ مینا جی ڈھانی میں اکثریت بھی ہندو مذہب کی کولہی، بھیل، مینگھواڑ اور اوڈ برادریوں سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ لوگ عام طور پر زمین داروں کے کھیتوں میں مزدوری کرتے ہیں۔

آسو بائی کہتی ہیں کہ چند سال پہلے تک ان کے گاؤں میں یا اس کے آس پاس کوئی اسکول نہیں تھا اس لیے یہاں بچے بھی اپنے والدین کے ساتھ کھیتوں میں کام کرتے تھے۔ خود انہوں نے اپنی ابتدائی  تعلیم گاوں سے کئی کلومیٹر دور واقع ایک سرکاری اسکول سے حاصل کی جبکہ میٹرک کا امتحان انہوں نے سامارو نامی قصبے سے پاس کیا۔ میٹرک کرنے کے بعد ان کے والد کنبھو مل کولہی کا انتقال ہوگیا لیکن ان کی والدہ نے محنت مزدوری کر کے ان کی تعلیم میں کوئی رکاوٹ نہ آنے دی اور انہیں بی اے تک تعلیم دلوائی۔   تعلیم سے نابلد معاشرے کی بےحسی  کا ذکر کرتے ہوئے آسو بائی  کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے، کہتی ہیں کہ ایک دفعہ وہ اسکول جا رہی تھیں تو بس میں ایک خاتون نے ان سے بیساکھیاں چھین کر انہیں گرا دیا۔ اس دن کے بعد انہوں نے اسکول جانے سے انکار کردیا تھا لیکن  ان کے والد نے انہیں سمجھایا کہ یہ ان کا امتحان ہے جس سے انہیں گھبرانا نہیں ہے۔

تعلیم مکمل کرنے کے بعد آسو بائی نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے گاوں کے بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گی۔ چناچہ 2014 میں انہوں نے اپنے جھونپڑی نما گھر کے ایک کمرے سے ایک اسکول کی ابتدا کی تاکہ مقامی بچوں مفت پڑھائی کر سکیں۔   تعلیم میں اپنے والد کی کوششوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے انہوں نے اپنے اسکول کا نام کنبھو مل ہائی سکول رکھا ۔

آسو بائی کے مطابق پہلے سال صرف تین بچوں نے داخلہ لیا۔ وہ کہتی ہیں کہ اس وقت مقامی لوگوں کو تعلیم کی اہمیت کا احساس نہیں تھا ، غربت کی وجہ سے  صرف 50 روپے روزانہ کمانے کے لیےوالدین اپنے بچوں کو کام پر بھیج دیتے تھے۔ پھر آہستہ آہستہ حالات نے مثبت موڑ لیا، والدین خود بچوں کو داخل کروانے آنے لگے   اور آج ان کےاسکول  میں 500 سے زائد بچے میٹرک تک مفت تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔

حکومت ِ سندھ کا ذیلی ادارہ سندھ ایجوکیشن فاونڈیشن  ، اسکول چلانے کے لیے درکار وسائل مہیا کرتی ہے۔ آسو بائی کا کہنا ہے کہ” جب سے ان کے اسکول کو میٹرک تک تعلیم دینے کی اجازت ملی ہے اس میں پڑھنے والی لڑکیوں کی تعداد میں بھی خاصا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ درا صل کئی نزدیکی آبادیوں کی لڑکیاں بھی یہاں پڑھنے کے لیے آ رہی ہیں”۔ انہیں بچیوں  میں چھٹی جماعت میں پڑھنے والی وسی بائی بھی شامل ہے۔ وہ اپنے دو بھائیوں کے ساتھ روازنہ ایک کلومیٹر کا فاصلہ پیدل طے کر کے آسو بائی کے سکول میں پڑھنے کے لیے آتی ہے کیونکہ اس کے گھر کے قریب کوئی دوسرا ہائی اسکول موجود نہیں ۔

مقامی لوگوں آسو بائی کی کوششوں کو بہت سراہتے ہیں۔ جانب علی دلوانی نامی مقامی سماجی کارکن کہتے ہیں کہ ان کے علاقے کا ماحول ایسا ہے کہ لڑکیاں تعلیم حاصل کرنے کے لیے اپنے گھر سے ایک کلومیٹر دور بھی نہیں جا سکتیں۔ ایسے ماحول میں آسو بائی کا خود تعلیم حاصل کرنا اور دوسری لڑکیوں کو تعلیمی سہولتیں فراہم کرنا ایک انتہائی قابل قدر اقدام ہے۔  ان کی انہی کارناموں کی وجہ سے نوبل انعام یافتہ پاکستانی سماجی کارکن ملالہ یوسف زئی نے 2014 میں آسوبائی کو  امریکہ بلایا جس کے بعد انہیں سندھ کی ملالہ بھی کہا جانے لگا۔

ان کے ساتھی استاد نانک رام کو بھی ان پر ناز ہے،کہتے ہیں کہ آسو بائی کی تعلیم کے لیے خدمات قابل تحسین ہے کیونکہ “اپنی معذوری کے باوجود انہوں نے تعلیم کے مشن کو کبھی رکنے نہیں دیا”۔

چھٹی جماعت کی طالبہ ریکھا بائی کی طرح آسو بائی کے سکول میں پڑھنے والی کئی بچیاں بھی ان سے بہت متاثر ہیں اور انہی کے رستے پر چلنا چاہتی ہیں۔ ریکھا بائی ایک کسان کی بیٹی ہیں لیکن ان کا خواب ہے کہ وہ تعلیم حاصل کرکے آسو بائی کی طرح ایک استاد بنیں اور انہی کی طرح اپنے گاوں کی خدمت کریں۔

 

 

1 Comment

  1. Ashok Ramani says:

    Good job

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *