کارونجھرپہاڑ اور مقدس تالاب

ہمارے گمنام ہیرو ۔۔۔۔ جہدِمسلسل کی کہانی
November 23, 2023
ہنر کو اپنی پہچان بنانے کا فن ڈانی کولہی سے سیکھئے
December 20, 2023

   (اشوک رامانی )

مذہبی رواداری اور ثقافتی تنوع سندھ کی پہچان ہے۔ پاکستان کے اس صوبہ  میں ہندوؤں کی سب سے زیادہ عبادگاہیں ہیں، جہاں کئی رسومات ادا کی جاتی ہیں، میلے لگتے ہیں اور ہر طرح کے  تہوار منائے جاتے ہیں، جن میں مسلمان اور دیگر مذاہب کے لوگ بھی شرکت کرتے ہیں۔

تھر کے صحرا میں موجود کارونجھر پہاڑ سندھ میں آباد ہندوؤں کے لیے ایک مقدس مقام کی حیثیت رکھتا ہے۔ کیوں کہ یہاں ہندوؤں کے 108 تیرتھ استھان (عبادت گاہیں) ہیں۔  انہیں عبادت گاہوں میں سے ساردھڑو دھام بھی ایک ہے، جو کہ کارونجھر کا ایک اہم ترین عبادت کا مقام ہے، یہاں شو مندر بھی ہے۔ لیکن اس مقام پہ ایک ایسا تالاب بھی ہے جس کی اہمیت ہندوؤں کے لیے گنگا ندی جیسی ہے، جہاں وہ اپنے عقیدے کے مطابق غسل کرکے گناہوں کا بوجھہ کم کرتے ہیں ،،، اپنے پاپ دھوتے ہیں۔

یہ مقام گئو مکھ یعنی گائے کے منہ والا مقام بھی کہلاتا ہے۔ کارونجھر پہاڑ کے حوالے سے یہ بات کہی جاتی ہے کہ آج سے کئی سو سال قبل یہاں سے دودھ بہتا تھا، مگر پھر دودھ کی جگہ پانی بہنے لگا۔ آج بھی کارونجھر سندھ کی اہم ترین سیاحتی مقام  ہے۔ کیا ہندو، کیا مسلمان یا عیسائی،،،  ملک بھر سے لوگ یہاں آکر اس پہاڑ کے حسن سے محظوظ ہوتے ہیں۔

اسی تالاب کے بارے میں ایک لوک داستان بھی مشہور ہے کہ پارا رشی نامی آدمی نے جب شادی کی تو اس کے بعد خود کوعبادات میں گم کرنے کے لیے اپنا گھر چھوڑ کر  کافی عرصہ کارونجھر میں گزارا۔ وہیں ایک لڑکی تھی جو لوگوں کو دریا  پار کراتی تھی۔ ایک مرتبہ پارا رشی یہاں سے بہنے والے ہاکڑا دریا کی جانب گیا تو اس لڑکی کی خوبصورتی دیکھ کر دنگ رہ گیا اور پھر پارا رشی  نےاس لڑکی کے ساتھ ہمبستری کی، جب یہ بات پارا رشی کی بیوی کو معلوم ہوئی تو اس نے کہا، جس لڑکی کے ساتھ اسنے وقت گزارا ہے  وہ تمہاری بیٹی ہے۔ لہٰذا اسے بہت بڑا گناھ سرزد ہوا ہے اور اسے اپنے گناہوں کو دھونا پڑے گا ۔ لہذا اسے اپنے پاپ دھونے کے لیے پانی کی ضرورت تھی مگر وہاں کے بزرگوں اور رشیوں (مذہبی رہنما) نے کہا کہ یہ پانی کوئی عام پانی نہیں ہوگا بلکہ تقریباً 68 تیرتھوں (مقدس مقامات) کا پانی ایک جگہ جمع کرکے اس میں نہائے تو اس کا جسم پاک ہوسکتا ہے۔ پارا رشی نے 68 مقامات سے پانی کا بندوبست کیا اور اس میں غسل کیا جس کے بعد اس کا جسم پاک ہوا اور اس طرح اس مقام کو ساردھڑو دھام کا نام دیا گیا۔ اس روایت کو قائم کرتے ہوئے  آج بھی لوگ تالاب میں کر خود کو پاک کرتے  ہیں۔

حیدرآباد کے کالی ماتا مندر کو سنبھالے والے مٹھو مہاراج کا کہنا ہے کہ” کارونجھر پہاڑ کے دامن میں قائم سار دھڑو دھام ہمارے لیے ایک مقدس مقام ہے اور یہاں تالاب کا پانی بھی اتنا ہی مقدس ہے جتنا گنگا کا پانی ہے۔ جو لوگ اپنی زندگی میں گنگا ندی تک نہیں جا سکتے وہ یہاں آتے ہیں اور اسی تالاب میں اپنے گناہوں کو دھوتے ہیں۔ یہ سلسلا پورا سال جاری رہتا ہے، مگر سال میں دو بار یہاں شو کا میلا لگتا ہے، ایک 7 مارچ کو اور دوسرا سردیوں کے موسم میں لگتا ہے۔ اگر کسی انسان سےکوئی گناہ ہو جائے تو اس پہ لازم ہے کہ وہ اس تالاب میں نہائے،کیوں کہ یہ عام پانی نہیں ہے اس میں دنیا کے 68 مقامات کا پانی ملا ہوا ہے”۔

40 سالہ رامچند ہر سال ساردھڑو دھام آکر تالاب میں نہاتا ہے، اس کا کہنا ہے کہ” ہمارے ہاں پانی کو بہت مقدس مانا جاتا ہے، لہٰذا ہم پانی میں نہا کر اپنے گناہوں کو دھونے کی کوشش کرتے ہیں ۔ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ سندھ میں ایک ایسا  تالاب موجود ہے جس میں نہانے سے ہم گناہوں کا کفارہ ادا کرتے ہیں، ورنہ ہمیں ہندستان گنگا ندی جانا پڑے گا اور یہ سفر بہت مشکل اور مہنگا ہے”۔

سندھ زرعی یونیورسٹی ٹنڈو جام کے پروفیسر محمد اسماعیل کنبھر سائنسی حوالے ایک الگ موقف رکھتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا یہ یہ تالاب  ملک میں بسنے والے ہندوؤں کے لیے ایک مقدس تالاب کی حیثیت رکھتا ہے مگر اس کے ساتھ میں یہ بھی دیکھنا ہوگا کی وقت گزرنے کے ساتھ یا کافی عرصے تک ایک جگہ پانی کا جمع ہونا کون سی آلودگی کا شکار ہوتا ہے۔ کیوں کہ پانی جمع کرنے والی کسی بھی جگہ میں پانی کے آنے اور اسے کے اخراج کا راستہ ہونا لازمی ہیں، کیوں کہ اس تالاب میں ہزاروں لوگ ہر سال نہاتے ہیں۔ اگر کسی کو جلد کی بیماری ہے تو وہ کسی اور کو بھی لگ سکتی ہے۔ اسی طرح جب کوئی صابن استعمال کرتا ہے اور وہ پانی میں شامل ہوجاتا ہے تو اس میں کئی کیمیکل اجزا بھی ہوتے ہیں جو پانی میں شامل ہو جاتے ہیں۔ لہٰذا وہ بھی تالاب کے پانی کو آلودہ کرتے ہیں۔ اس لیے یہاں پانی کو زیادہ دیر جمع نہ ہونے دیا جائے اور پانی کے اخراج کا بندوبست لازمی کیا جائے”۔

60  سالہ چنی لال مہاراج، ساردھڑو میں شو مندر کو سنھبالتے اور یہاں آنے والوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ مندر اور مقام صدیوں سے ان لوگوں کے لیے توبہ کا دورازہ ہے، وہ جب بھی چاہیں یہاں آ سکتے ہیں ۔ کارونجھر کی گود میں موجود یہ تالاب اس لیے بھی مقدس کہلاتا ہے کہ پارا رشی نے اس خطے (سندھ) کے لیے ایک لحاظ سے آسانی پیدا کی ہے۔ اگر ہم گنگا میں نہیں نہا سکتے تو ہم سار دھڑو دھام کے اس تالاب میں نہا کر اپنے گناہوں کو دھو سکتے ہیں۔ اپنے اندر کی شانتی کے لیے لوگوں کا یہاں آنا اور مطمئن ہو کر چلے جانا ہماری سب سے بڑی کامیابی  ہے”۔

 

4 Comments

  1. Khushal Premee says:

    Very wonderful and informative writeup.

  2. Haseeb latifi says:

    Nice story

  3. Fazil channa says:

    بھترين اسٽوري

  4. Muneer Rajar says:

    Nice story

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *